اتوار 26 اکتوبر 2025 - 20:51
فکری اسرائیلیت کیا ہے؟

حوزہ/فکری اسرائیلیت ایک اصطلاح ہے جو اس طرزِ فکر کو ظاہر کرتی ہے جو اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ سمجھتی ہے؛ دوسروں کو ناپاک اور باطل ٹھہراتی ہے اور اقتدار، تشدد اور نسل‌ پرستی کو الٰہی فریضہ بنا دیتی ہے، یہی فکر آج نیتن یاہو کے اسرائیل میں بھی کار فرما ہے جو فلسطینیوں کے خون کو دفاع کہتی ہے اور یہی فکر ان مسلم معاشروں میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں مذہب کو طاقت، نفرت اور قتل کا جواز بنا دیا گیا ہے۔

تحریر: علی مرتضیٰ حیدری

حوزہ نیوز ایجنسی| فکری اسرائیلیت ایک اصطلاح ہے جو اس طرزِ فکر کو ظاہر کرتی ہے جو اپنے آپ کو خدا کا نمائندہ سمجھتی ہے؛ دوسروں کو ناپاک اور باطل ٹھہراتی ہے اور اقتدار، تشدد اور نسل‌ پرستی کو الٰہی فریضہ بنا دیتی ہے، یہی فکر آج نیتن یاہو کے اسرائیل میں بھی کار فرما ہے جو فلسطینیوں کے خون کو دفاع کہتی ہے اور یہی فکر ان مسلم معاشروں میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں مذہب کو طاقت، نفرت اور قتل کا جواز بنا دیا گیا ہے۔

دونوں ایک ہی زبان بولتے ہیں؛ دونوں عدلِ الٰہی کے دشمن ہیں اور دلچسپ (بلکہ الم ناک) بات یہ ہے کہ دونوں ایران جیسے مظلوموں کے حامی ملک کو دہشت‌ گرد قرار دیتے ہیں۔

یہاں نام اور لباس الگ ہیں ایک کا نام نیتن یاہو ہے تو دوسرے کا اورنگزیب فاروقی؛ مگر فکر ایک ہی ہے۔

فکرِ ابلیس آپ جانتے ہیں جو حق کو باطل کے لباس میں چھپاتی ہے اور ظلم کو مذہبی فریضہ بنا دیتی ہے؛ یہ ان کی فکر ہے۔

جب فکر ایک ہو تو ناموں کا فرق معنی نہیں رکھتا ہے۔

اگر کوئی غور کرے تو واضح ہو جائے گا کہ الفاظ، زبانیں اور قومیں مختلف ہو سکتی ہیں، مگر فکر ایک ہی ہو تو انجام بھی ایک جیسا ہوتا ہے۔

آج جب اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کے خون کو جائز ٹھہراتا ہے، جب کوئی مسلمان کہلانے والا، مثلاً اورنگزیب فاروقی، اپنے ہم مذہب کے خلاف نفرت، تکفیر اور خون‌ ریزی کی ترغیب دیتا ہے تو سوال یہ نہیں کہ ان دونوں کے نام مختلف ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ ان کی روحِ فکر کہاں سے جنم لیتی ہے؟

دین کا ظاہر اور باطن

دین صرف کلمہ پڑھ لینے یا مذہبی شناخت رکھنے کا نام نہیں۔

قرآنِ کریم نے بارہا فرمایا ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ.

مؤمن تو بس بھائی بھائی ہیں (الحجرات: ۱۰l)

لیکن جو شخص اپنے ہی بھائی کا خون بہائے جو مسجدوں کو جنگ کے اڈے بنائے جو نفرت کو ایمان سمجھے وہ دراصل دین کے ظاہر سے چمٹا ہوا ضرور ہے مگر باطن سے ابلیسی فکر کا پروردہ ہے۔

ایسے لوگ چاہے تل ابیب میں ہوں یا کراچی میں دراصل ایک ہی باطن کے نمائندہ ہیں۔ وہ باطن جو حق سے دشمنی، عدالت سے نفرت اور ظلم کی حمایت پر قائم ہے قرآن ان کا تعارف کچھ اس طرح سے کرتا ہے: يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُم بِأَيْدِيهِمْ. یہ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھروں کو تباہ کرتے ہیں (الحشر: ۲)

یہ آیت یہودِ بنی نضیر کے بارے میں نازل ہوئی تھی، مگر مفہوم ہر اُس قوم پر صادق آتا ہے جو اپنی جڑیں خود کاٹتی ہے۔ آج وہی کردار بعض مسلم معاشروں میں دہرایا جا رہا ہے اور ہم مشاہدہ بھی کر رہے ہیں۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی عقیدے کے تحفظ کے بہانے، مگر نتیجہ وہی امت کا شیرازہ بکھر رہا ہے دشمن خوش ہو رہا ہے۔

یہی فکر آج نیتن یاہو کے اسرائیل میں بھی کار فرما ہے اور یہی فکر ان مسلم معاشروں میں بھی دکھائی دیتی ہے جہاں مذہب کو طاقت، نفرت اور قتل کا جواز بنا دیا گیا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک نے یہودیت کے لبادے میں اسے اپنایا ہے اور دوسرے نے اسلام کے نام پر حقیقی اسلام کا مؤقف اسلام جیسا کہ قرآن اور اہل‌ بیتؑ نے سکھایا ظلم کے ہر چہرے کے خلاف ہے؛چاہے وہ یہودی مظالم کے نام پر ہو یا مسلم تکفیر کے نام پر۔

امام علیؑ نے فرمایا: الظُّلمُ مِن شِيمِ النُّفوسِ، فَإِن تَجَاوَزتْهُ فَهُوَ مِن كَرَمِ الطَّبعِ. ظلم نفوس کی خصلت ہے، مگر جو اس سے بلند ہو جائے وہ شرافتِ طبع کا مظہر ہے۔

لہٰذا وہ مسلمان جو عدل، عقل، اور رحمت محمدیؐ سے منہ موڑ لے وہ عملاً اسی صف میں جا کھڑا ہوتا ہے جہاں اسرائیلی صیہونی کھڑا ہے۔

اصل اور حقیقت میں دیکھا جائے تو نہ نیتن یاہو کا مسئلہ یہودیت ہے اور نہ اورنگزیب فاروقی کا مسئلہ اسلام ہے ان دونوں کا مسئلہ باطن کی اسرائیلیت ہے؛ وہ ذہن جو دین کو ظلم کا جواز بناتا ہے اور نفرت کو ایمان کا متبادل سمجھتا ہے؛ یہ دونوں ایک ہی فکری مکتب کے شاگرد ہیں وہ مکتب جو شیطان نے کھولا تھا، جس کا پہلا سبق یہی تھا۔ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ. میں اس سے بہتر ہوں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha