۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
نماز و روزه استیجاری

حوزہ/ دین و مذہب کا دائرہ کار رموز و اسرار کا دائرہ کار ہے۔ اگر جو بھی چیز ہمارے عرفی اور عمومی درک و فہم سے سمجھے جانے کے قابل نہ ہو تو ہم اسے ناقابل قبول مانیں تو اس طرح تو بہت سے مذہبی احکامات کا ان سےجہالت کی وجہ مذاق اڑایا جا سکتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق "امام خمینی (رہ) تعلیمی و تحقیقی انسٹیٹیوٹ قم" کے اساتید میں سے ایک جناب ڈاکٹر محمد فنائی نے نماز اور روزۂ استیجاری کے بارے میں ہوئے سوالات کے جواب میں لکھا ہے:

سوال: اجارہ پر نماز اور روزے کا فلسفہ کیا ہے ؟ بیٹے کا باپ کے لئے نماز پڑھنا کیا معنی رکھتا ہے؟ یہ تو ایسا ہوا گویا "پڑھے لکھے ایک شخص لیکن اس کو اپنی ڈگری دوسرے شخص کو دے دی جائے"۔ اس طرح سے ایک شخص نے نماز اور روزۂ استیجاری  کا طنزیہ طور پر تمسخر کیا ہے اور اسے اگر غلط فہمی ہوئے ہے تو س بارے میں آپ کا جواب کیا ہے؟

جواب: سب سے پہلے تو اگر فقہاء اور علماء دین کی رائے پر تنقید کی جائے تو اس تمسخر و طنز کا مطلب کیا ہے؟ طنز بنیادی طور پر غیر اخلاقی حرکت ہے اور اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ اگر ان کے پاس اپنے دعوے پر کوئی صحیح استدلال ہے تو وہ بیان کریں۔ بدقسمتی سے غصہ، نفرت اور ہیجان وغیرہ درست فیصلوں میں رکاوٹ ہوا کرتے ہیں۔ اگر ہم کسی وجہ سے لوگوں سے ناراض ہیں تو ہم مشکل سے ان کا اور ان کے خیالات کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔ درحقیقت ، محبت اور نفرت کو ایک طرف رکھ کر افہام و تفہیم کی پوزیشن میں رکھنا عظیم جہاد کی ایک مثال ہے۔

۲۔ ثانیاً، دین و مذہب کا دائرہ کار رموز و اسرار کا دائرہ کار ہے۔ اگر جو بھی چیز ہمارے عرفی اور عمومی درک  و فہم سے سمجھے جانے کے قابل نہ ہو تو ہم اسے ناقابل قبول مانیں تو اس طرح تو بہت سے مذہبی احکامات کا ان سےجہالت کی وجہ مذاق اڑایا جا سکتا ہے۔

نماز ، روزہ ، حج ، اعتکاف اور اس طرح کے کام ایسی چیزیں نہیں ہیں جو انسان اپنی معمول کے مطابق اور غیر مذہبی و عرفی زندگی میں انجام دیتا ہے بہرحال ایک دیندار شخص کی نظر اس سے مختلف ہے۔ وہ اپنی عقلانیت کی بنیاد پر اپنی عبادت اور اطاعت کے ضروری ہونے کو ثابت کرتا ہے اور عبادت کے طریقۂ کار اور اس کے انجام کے حوالے سے وہ شریعت کے قوانین کا تابع ہوتا ہے۔ اسے "تعبّد" کہا جاتا ہے اور جو تعبّد دوسرے شرعی احکام میں جاری ہوتا ہے وہی نماز و روزۀ استیجاری کے لئے بھی جاری ہوتا ہے۔

۳۔ ثالثاً، یہ حکم صرف نماز اور روزے کے ساتھ ہی مختص نہیں ہے بلکہ اگر کوئی باپ کسی کا مقروض تھا تو ورثاء ممکنہ صورت میں اس قرض کو ادا کرنے کے پابند ہیں۔ اگر یہ معزز شخص جو اجارہ کی نمازوں اور روزوں کا مذاق اڑاتا ہے اگر اس نے کسی کو رقم ادھار دی ہو اور وہ شخص مر جائے اور اب قرض دار کے ورثاء اس کا قرض ادا کرنا چاہیں تو کیا وہ اسے نہیں لے گا اور ان کا مذاق اڑائے گا؟ یا وہ ان کے اس عمل سے خوش ہو گا اور کہے گا کہ"واہ ، کیا ہی اچھا قانون ہے اور کتنا برا ہوتا کہ اگر کسی شخص کے مرنے کے ساتھ اس کا قرضہ بھی ورثاء پر سے ساقط کر دیا جاتا ؟!"۔

۴۔ رابعاً، یہ کہ یہ حکم اس فرض کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ موت کے باوجود بھی کچھ فرائض مثلا نماز اور روزہ انسان پر سے ساقط نہیں کیا جاتا۔ یہی چیز باعث بنتی ہے کہ ایک شخص اپنے فرائض پر زیادہ توجہ دیتا ہے اور ان کی انجام دہی کے لئے زیادہ پرعزم ہوتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ "جو گزر گیا سو گذر گیا" بلکہ جب تک زندہ ہے اپنے فرائض کی انجام دہی کی کوشش کرتا ہے اور اپنے قرض کو ادا کرتا ہے۔

۵۔ خامساً، جب کوئی شخص جانتا ہے کہ اس کی موت سے اس کے فرائض ساقط نہیں ہوں گے بلکہ اس کے اپنے بچوں کے سپرد کر دئے جائیں گے تو اب جب تک وہ زندہ ہے تووہ  اپنے بچوں سے ہمدردی اور عطوفت کے سبب اپنے فرائض اور قرضوں کو ادا کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ اس کی وجہ سے اس کے بچوں کو تکلیف سے بچایا جا سکے۔

۶۔ سادساً، ایک شخص کی اولاد اس کے وجود اور اس کی زندگی کا ثمرہ اور پھل ہیں تو اب اس میں کیا مضاءقہ ہے کہ اس شخص کے فرزندان کے اقدام سے اس کے فرائض کی ادائیگی ہو جائے۔یہ چیز مالی قرضوں کی ادائیگی سےبآسانی سمجھی بھی جا سکتی ہے۔

۷۔ سابعاً، یقینا والدین کا بچوں پر حق ہے اور اولاد اپنے والدین کے احسان مند ہیں اور ان سے نیکی کرنا ان پر فرض ہے۔ یہ فرض جیسا کہ والدین کی زندگی میں ضروری ہے اسی طرح ان کی وفات کے بعد بھی ضروری ہے۔ تو اب اس طرح اولاد نیک کام اور ان کے لئے صدقہ و خیرات وغیرہ کے ذریعہ اپنے والدین کے احسانات کے بعض حصہ کا حق ادا کر سکتے ہیں۔

۸۔ ثامناً، خدا بڑا مہربان اور ارحم الراحمین ہے اور ہمیشہ اس کی رحمت اس کے غضب پر سبقت رکھتی ہے ۔ خدا اپنے بندوں کو جہنم میں بھیجنے کا کوئی بہانہ نہیں ڈھونڈتا بلکہ ہمیشہ انہیں معاف کرنے کے بہانے کی تلاش میں رہتا ہے۔ رحمتِ الہی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کی موت کے بعد بھی ان کی کوتاہیوں کی تلافی کے لئے ایک راستہ کھلا رکھے تاکہ وہ اس کے فضل و عنائتِ خاص سے بہرہ مند ہوتے رہیں۔

۹۔ تاسعاً، خدا کی حکمتوں میں سے ہی ایک رحمتِ الہی سے ناامید نہ ہونا ہے۔ بندہ چونکہ خداوند متعال کو ارحم الراحمین مانتا ہے تو اب وہ کسی بھی حالت میں خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اس لئے اگر بندہ اپنی زندگی کے اختتام پر دیکھتا ہے کہ اس کے کچھ فرائض اس کی زندگی میں ادا ہونے سے رہ گئے ہیں درحالانکہ وہ اس غفلت سے نادم اور پشیمان ہے تو اب وہ خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا اور امید کرتا ہے کہ اس کے جانے کے بعد بھی اس کے بچے ان فرائض کا کچھ حصہ ادا کر سکیں گے۔

۱۰۔ عاشراً، یہ جو کچھ بھی ہم نے کہا ہے اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ اجارے کی نماز اور روزے وغیرہ کی ادائیگی کا لازمہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ  جس شخص کے لئے اجارے کی نماز وغیرہ  پڑھی جاتی ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے اپنی زندگی میں نماز پڑھی ہو۔ یہ کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے اور یقینا جس نے بھی اپنی زندگی میں نماز نہیں پڑھی اس نے اپنا بہت عظیم نقصان کیا ہے بہرحال خداوند متعال نے اپنی رحمت کی وجہ سے اپنے گنہگار بندوں کے لئے یہ دروازہ کھول دیا ہے تاکہ اس نقصان کا کچھ حصہ ادا ہو جائے۔     

لہذا طنز و تمسخر کے بجائے ہمیں ایسے احکام کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ جو مختلف طریقوں سے اپنے بندوں کے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھولتا ہے اوراسی طرح ایسا دین عطا کرنے پر بھی اس کا  شکر ادا کرنا چاہئے جو اس طرح کے ظریف نکات پر بھی توجہ دیتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .