حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق مندرجہ ذیل روایت کتاب "نہج البلاغہ" سے نقل کی گئی ہے۔ اس روایت کا متن اس طرح ہے:
قال الامام العلی علیه السلام:
الْمُؤْمِنُ بِشْرُهُ فِي وَجْهِهِ وَ حُزْنُهُ فِي قَلْبِهِ، أَوْسَعُ شَيْءٍ صَدْراً وَ أَذَلُّ شَيْءٍ نَفْساً، يَكْرَهُ الرِّفْعَةَ وَ يَشْنَأُ السُّمْعَةَ، طَوِيلٌ غَمُّهُ، بَعِيدٌ هَمُّهُ، كَثِيرٌ صَمْتُهُ، مَشْغُولٌ وَقْتُهُ، شَكُورٌ، صَبُورٌ، مَغْمُورٌ بِفِكْرَتِهِ، ضَنِينٌ بِخَلَّتِهِ، سَهْلُ الْخَلِيقَةِ، لَيِّنُ الْعَرِيكَةِ، نَفْسُهُ أَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ وَ هُوَ أَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ
حضرت امام علی علیہ السلام نے (مومن کے متعلق) فرمایا:
مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل خوار سمجھتا ہے۔ سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے۔ اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش، ہمہ وقت مشغو ل، شاکر، صابر، فکر میں غرق، دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے۔ اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور وہ خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔
نهج البلاغه، حکمت ۳۳۳