۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
حفظ حجاب و پوشش اسلامی از دستورات مهم دین اسلام است

حوزه/ اسلامی نقطۂ نگاہ سے اخلاقی پسندیدہ صفات میں سے ایک صفت، عفت و پاکدامنی ہے۔ عفت انسان کے جنسی میلانات کو تعادل بخشتی اور اسے جنسی برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔

تحریر: سیدہ فرح زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی نقطۂ نگاہ سے اخلاقی پسندیدہ صفات میں سے ایک صفت، عفت و پاکدامنی ہے۔ عفت انسان کے جنسی میلانات کو تعادل بخشتی اور اسے جنسی برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ جب انسان پر جنسی شہوات سوار ہوتی ہیں تو وہ اپنی حدود سے تجاوز کرنے لگتا ہے تب یہی ملکہ نفسانی انسان کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسا شخص جو اس عظیم صفت سے بے بہرہ ہو وہ دن بدن برائیوں کے دلدل میں غرق ہوتا جاتا ہے اور بد بختی اس کا مقدر ہو جاتی ہے۔

دین اسلام نے اس اخلاقی صفت کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے جیسا کہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: (علیك بالعفاف فانه أفضل شیم الأشراف)؛ "تمہیں عفت سے کام لینا چاہیئے کیونکہ یہ با شرف لوگوں کا شیوہ ہے۔"

دوسری جانب انسان میں جنسی لذات بہت قوی اور شدید ہیں۔ اگر انسان انہیں حلال راستوں سے پورا نہ کر سکے تو معاشرے میں قتل و غارتگری، خیانت اور جنسی تجاوزات جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں، اسی طرح جنسی لذت کا پورا نہ ہونا کبھی کبھار مختلف ذہنی اور روانی بیماریوں کا بھی سبب بنتا ہے، کیونکہ عفت و پاکدامنی اس جنسی لذت یا شہوت کو تعادل میں رکھنے کا سبب ہے، لہٰذا دین مبین اسلام نے اسے بہت زیادہ اہمیت دی ہے اور اسلامی معاشرے میں اس کا ایک اصل کے عنوان سے تعارف کروایا ہے۔

اسلام کی نظر میں عفت و پاكدامنی کی اہمیت کا اندازہ امام علی علیہ السلام کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس میں آپ نے پاکدامنی کے ثواب کو راہ خدا میں شہید ہونے والے کے ثواب سے زیادہ بیان کیا ہے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: (ما المجاهد الشهید فی سبیل اللّه بأعظم أجراً ممن قدر فعف لكاد العفیف أن یكون ملكاً من الملائكة)؛ "وہ مجاہد جو خدا کی راہ میں جہاد کرتا ہے اس کا اجر اس شخص سے زیادہ نہیں جو گناہ کی قدرت رکھتے ہوئے خود کو گناہ سے بچاتا ہے ایسا شخص(پاکدامن) فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہے۔

پاكدامنی کی اہمیت

دین اسلام نے عفت و پاکدامنی کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے، لہٰذا اسی اہمیت کے پیش نظر ذیل میں آیات و روایات کی رو سے عفت و پاکدامنی کی اہمیت کو بیان کیا جائے گا۔

1- پاكدامنی، مؤمنین کی صفات میں سے ایک

سورہ مؤمنون کی ابتدائی آیات میں مؤمنین کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ خداوند عالم نے اس سورہ میں عفت و پاکدامنی اور ہر طرح کی جنسی آلودگی سے پرہیز کو مؤمنین کی صفات میں سے ایک قرار دیا ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے: وَ الَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. جو اپنی شرمگاہوں کی حفاﻇت کرنے والے ہیں."

علاّمہ طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ"فروج فرج کی جمع ہے، جس کے معنی مرد و عورت کی شرمگاہ کے ہیں، کیونکہ لوگ اس کا نام لینے سے شرم کرتے ہیں لہٰذا شرمگاہ کی حفاظت کنایہ ہے اور یہاں نا جائز رابطہ مراد ہے جیسے زنا، لواط یا حیوانات کے ساتھ فعل حرام انجام دینا۔"

ایک اور مفسر قرآن کے مطابق، یہ آیت انسان کی روح، خاندان اور معاشرہ کی پاکی اور عفت کے بارے میں ہے اور انسان کے نفس، خاندان اور معاشرے کو شہوت سے لبریز روابط سے روکنے کے متعلق ہے۔ جس معاشرے میں شہوت عروج پر ہو وہ معاشرہ فاسد ہو جاتا ہے، کیونکہ ایسے معاشرے میں گھر اور خاندان کی حرمت باقی نہیں رہتی۔ خاندان جو کہ معاشرے کی اکائی ہے کی حفاظت بہت ضروری ہے اور وہی گھرانہ سکون و اطمینان کی زندگی گزار سکتا ہے، جہاں عفت و پاکدامنی ہو۔

اس کے بعد اگلی آیت میں فرماتا ہے: (إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُومِینَ)؛ بجز اپنی بیویوں اور ملکیت کی کنیزوں کے یقیناً یہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں۔

یہ جملہ حفظ فروج(شرمگاہ کی حفاظت) سے استثناء ہوا ہے، (علی أزواجِهِم) سے حلال عورتیں مراد ہیں اور (أَوْ مَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ) سے وہ کنیزیں جو ان کی ملکیت میں ہوں۔ اپنی بیویوں اور کنیزوں سے مجامعت کرنا ملامت کا سبب نہیں۔ بیشک مؤمنین اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

یہاں بیویوں سے تمام بیویاں مراد ہیں چاہے وہ نکاح میں ہوں یا متعہ کے ذریعہ۔ جیسا کہ حدیث میں منقول ہے: عن جعفربن محمد عن ابیه عن آبائه علیهم السّلام قال: قال: امیرالمؤمنین علیه السلام «تحل الفروج بثلاثة وجوه: نكاح بمیراث، و نكاح بلامیراث، و نكاح بملك یمین)؛ جعفر بن محمد نے اپنے والد اور انہوں نے اپنے والد گرامی علیهم السّلام سے نقل کیا ہے کہ امیرالمؤمنین علی بن أبی طالب علیہما السّلام نے فرمایا: "فرج تین میں سے ایک طریقے سے حلال ہوتے ہیں: 1۔ ارث کے ساتھ نکاح 2۔ ارث کے بغیر نکاح(متعہ) 3۔ ملک یمین(کنیز) سے نکاح۔"

اس روایت اور اس جیسی دوسری کئی روایات میں متعہ کو نکاح اور شادی سے تعبیر کیا گیا ہے اور شیعہ عقیدہ کی بنیاد پر یہی صحیح ہے۔ البتہ بعض اہل سنت مفسر یہاں خطا کا شکار ہوئے ہیں اور متعہ کو زنا سے تعبیر کرتے ہیں۔ جیسا کہ سیوطی لکھتے ہیں: عن القاسم بن محمّد انه سئل عن المتعة فقال: انی لاری تحریمهما فی القرآن ثم تلا «وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِهِمْ أَوْمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ)؛ قاسم بن محمّد سے متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: بیشک میں اس کے حرام ہونے کو قرآن میں دیکھ رہا ہوں اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: (وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِهِمْ أَوْمَا مَلَكَتْ أَیْمَانُهُمْ) فخر رازی کہتے ہیں کہ متعہ کے حرام ہونے کی دلیل یہی آیت ہے۔ قاسم بن محمّد کی روایت کے مطابق متعہ زوجیّت کا سبب نہیں، کیونکہ اس میں میاں بیوی ایک دوسرے سے ارث نہیں لیتے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ متعہ کا پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں حلال ہونا واضح طور پر ثابت ہے اور کوئی بھی اس کا انکار نہیں کرتا، لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلام کے آغاز میں یہ حلال تھا۔ بہت سے صحابہ نے اس پر عمل بھی کیا، لیکن بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ کچھ دوسرے افراد کا کہنا ہے کہ عمربن خطّاب نے اپنے دور میں اس سے منع کیا۔

اہل سنت کے کلام کو خلاصہ کیا جائے تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی الله علیہ و آلہ وسلم نے نعوذباللہ کچھ مدت کیلئے ہی صحیح، لیکن زنا کو حلال قرار دیا جو غیر ممکن ہے۔

کچھ اہل سنت مفسر بھی اس نظر کے مخالف ہیں جیسا کہ زمخشری کہتے ہے کہ یہ دلیل متعہ کو حرام نہیں کر رہی، کیونکہ متعہ بھی شادی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ انسانی خواہشات میں سے جنسی خواہش نہایت سرکش ہے اور اس سے حفاظت کیلئے تقوی اور پرہیزگاری اور ایمان کی ضرورت ہے۔

سورۂ مبارک معارج میں بھی عفت و پاکدامنی کو مؤمنین کی نمایاں خصوصیات میں شمار کیا گیا ہے۔

اسلام نے ایسا معاشرتی نظام متعارف کرایا ہے کہ جہاں انسان کی فطری شہوات کی بھی تسکین ہو جائے اور معاشرہ بھی جنسی فساد اور فحش کا شکار نہ ہو۔ یہاں پر ایک اہم نکتہ کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ کنیزوں کا حلال ہونا کچھ خاص شرائط پر متمرکز ہے کہ جسے فقہی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے کہ جن میں سے بہت سی شرائط وہی ہیں جو بیویوں کیلئے ہیں۔ البتہ آج کے اس دور میں کنیزوں کے ختم ہونے کے ساتھ ساتھ یہ موضوع بھی ختم ہو گیا ہے۔

سورہ احزاب کی 35ویں آیت میں مؤمنین کی اعتقادی، اخلاقی اور عملی صفات بیان کرتے ہوئے پاکدامنی کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالٰی ہے: (وَالْحَافِظَینَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ)؛ "۔۔۔اور اپنی شرمگاه کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاﻇت کرنے والی۔۔۔"

اوپر ذکر کی گئی آیات اور ان کی تفسیر کی بناء پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ مؤمن مرد اور عورت کی نمایاں صفات میں سے ایک عفت و پاکدامنی اور تمام حالات میں خود کو جنسی انحرافات سے محفوظ رکھنا ہے۔

2- پاكدامنی بہترین عبادت

معصومین علیہم السلام کی روایات میں عفت و پاکدامنی کو بہترین عبادات میں شمار کیا گیا ہے۔ مختلف الفاظ اور مختلف روایتوں میں اس موضوع کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ جن میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:

عن أبی عبداللّه علیه السلام كان أمیرالمؤمنین علیه السلام یقول: (أفضل العبادة العفاف)، امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: "عفت و پاکدامنی بہترین عبادت ہے کہ یہاں عفت سے مراد تمام حرام کاموں سے اجتناب کرنا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے: قال الباقر علیه السلام: (أفضل العبادة عفة البطن و الفرج)، امام باقر علیہ السلام نے فرمایا: "شکم(پیٹ) اور شرمگاہ کی عفت و حفاظت افضل ترین عبادت ہے۔" عن أبی جعفر علیه السلام قال: «ما من عبادة أفضل عنداللّه من عفة بطن و فرج)، امام باقر علیه السلام نے فرمایا: " کوئی بھی عبادت پروردگار عالم کے نزدیک پیٹ اور شرمگاہ کی حفاظت سے بہتر نہیں۔" عن امیرالمؤمنین علیه السلام انه قال: «أفضل العبادة شی ء واحد و هو العفاف)، امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: "عبادات میں سے أفضل ایک چیز ہے اور وہ ہے عفت و پاکدامنی۔"

3- پاكدامنی، بیوی کے انتخاب کی اہم و بنیادی شرط

قرآن و روایات میں میاں بیوی کے انتخاب کی بنیادی شرط پاکدامنی کو قرار دیا گیا ہے۔ خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: (...وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَیْتُمُوهُنَّ أُجورَهُنَّ....)؛ یہ آیت باعفت مسلمان اور اہل کتاب خواتین سے شادی کے بارے میں محو سخن ہے۔ ارشاد ہوا: "۔۔۔اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ہیں ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو۔"

مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت پاکدامن مؤمنہ عورتوں اور پاکدامن اہل کتاب عورتوں سے شادی کرنے کے جائز ہونے پر دلیل ہے۔ احصان کا لفظ عفیف ہونے، آزاد ہونے، شوہر دار ہونے اور مسلمان ہونے کے معنی میں ہے، لیکن یہاں اس آیت میں صرف پہلے معنی مراد ہیں یعنی عفیف ہونا۔ اس مطلب کی تائید امام جعفر صادق علیہ السلام کی اس روایت سے ہوتی ہے جو آپ نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمائی، امام نے فرمایا: (هنّ العفائف) خدا پر ایمان، اس کے بھیجے گئے رسولوں پر عقیدہ رکھنا اور عفت و پاکدامنی ہمسفر کے انتخاب اور خاندان کی تشکیل کیلئے بہت ضروری ہے۔ اسی آیت میں خداوند عالم مزید فرماتا ہے: (محْصِنِینَ غیْرَ مُسَافِحِینَ وَلاَ مُتَّخِذِی أَخْدَانٍ)؛ "اس طرح کہ تم ان سے باقاعده نکاح کرو یہ نہیں کہ علی الاعلان زنا کرو یا پوشیده بدکاری کرو۔۔۔ ۔"

مردوں کا پاکدامن ہونا ان کے باعفت اور پاکدامن عورتوں سے شادی کے حلال ہونے کی شرط ہے۔ اخدان خدن کی جمع ہے کہ جس کے معنی دوستی و رفاقت کے ہیں اور یہاں اس آیت میں ناجائز جنسی رفاقت مراد ہے۔ مسافحین سفاح سے زنا کے معنی میں ہے۔ یہ آیت مردوں اور عورتوں کے پوشیدہ اور آشکار رابطوں کے حرام ہونے پر دلالت کر رہی ہے کہ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عفت و پاکدامنی کو کس قدر اہمیت دی ہے۔ فقہاء نے بھی اس مسئلہ پر بہت زیادہ زور دیا ہے اور نکاح کے آداب کو بیان کرتے ہوئے ہمسر کی ایک شرط اس کا پاکدامن ہونا بیان کی ہے۔ فقہاء میں سے علامہ حلی کے مطابق، مردوں کیلئے مستحب ہے کہ وہ شادی کیلئے ایک ایسی لڑکی کا انتخاب کریں جو باکرہ، پاکدامن اور صاحب حسب و نسب ہو۔ امام خمینی(رح) اس بارے میں کہتے ہیں: مرد کیلئے بہتر ہے کہ بیوی کے انتخاب میں صرف اس کی ظاہری خوبصورتی اور اس کے مال و دولت کو نہ دیکھے، بلکہ ایسی لڑکی کا انتخاب کرے جو با شرف اور صفات اخلاقی کی حامل ہو اور اس میں کسی قسم کی اخلاقی برائی نہیں پائی جاتی ہو اور اس حوالے سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: «و ان خیر نسائكم الولود الودود العفیفة، العزیزه فی أهلها، الذلیلة مع بعلها، المتبرجه مع زوجها، الحصان علی غیره التی تسمع قوله و تطیع امره». "تمہاری عورتوں میں سے بہترین وہ ہے جو تمہیں اولاد دے، تم سے محبت کرتی ہو، عفیف ہو، گھر والوں کے درمیان عزیز ہو، اپنے شوہر کی نسبت متواضع ہے اور اپنی خوبصورتی صرف شوہر پر عیاں کرتی ہو نا کسی اور کے سامنے، ایسی عورت کہ جو اپنے شوہر کی باتوں کو غور سے سنے اور اس کی اطاعت کرتی ہو۔"

خداوند عالم قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: (الزَّانِی لاَ یَنكِحُ إِلاَّ زَانِیَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَ الزَّانِیَةُ لاَ یَنكِحُهَا إِلاَّ زانٍ أَوْ مُشْرِكٌ وَ حُرِّمَ ذلِكَ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ)؛"زانی مرد بجز زانیہ یا مشرکہ عورت کے کسی سے نکاح نہیں کرتا اور زناکار عورت بھی بجز زانی یا مشرک مرد کے کسی سے نکاح نہیں کرتی اور ایمان والوں پر یہ حرام کردیا گیا۔" اگرچہ یہ آیت زانی اور زانیہ کے ساتھ شادی کے حرام ہونے کو بیان کر رہی ہے، لیکن یہ حکم روایات میں ایسے افراد سے مخصوص ہے جو اس فعل میں مشہور ہو گئے ہوں یا جنہوں نے توبہ نہیں کی ہو۔ اگر اس عمل کیلئے مشہور نہ ہوں اور اپنے عمل سے کنارہ کشی کر لی ہو اور عفت و پاکدامنی کا ارادہ کر لیا ہو اور اپنی توبہ کو عملی طور پر ثابت کریں تو ایسے افراد سے شادی کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

کچھ مفسرین نے اس آیت کے شان نزول میں اس واقعہ کو ذکر کیا ہے کہ ایک دن ایک مسلمان شخص پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور آپ(ص) سے ام مهزول کہ جو جاہلیت کے دور میں جنسی آلودگی میں مشہور و معروف تھی سے شادی کے بارے میں سوال کیا تو یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی۔

امام باقر علیه السلام سے اس آیت کے متعلق نقل ہوا ہے: فی قوله اللّه عزّوجلّ: "الزَّانِی لاَ یَنكِحُ إِلاَّ زَانِیَةً أَوْ مُشْرِكَةً" قال (هم رجال و نساء كانوا علی عهد رسول اللّه صلی الله علیه و آله مشهورین بالزنا فنهی اللّه عن أولئك الرجال و النساء و النسا الیوم علی تلك المنزلة، من شهر شیئاً من ذلك أو أقیم علیه الحد فلا تزوجوه حتی تعرف توبته) یہ آیت ان مردوں اور عورتوں کی جانب اشارہ ہے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں زنا کیلئے مشہور تھے۔ خداوند عالم نے ایسے افراد کے ساتھ شادی کرنے سے منع کیا ہے اور آج بھی ایسا ہی ہے کہ جو اس عمل کا مرتکب ہوتا اور اس کا جرم ثابت ہو جاتا ہے اس پر زنا کی حد جاری ہوتی ہے۔ ایسے شخص سے شادی نہ کرو جب تک اس کی توبہ ظاہر اور آشکار نہ ہو جائے۔

شادی کے معاملات میں بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیئے کہ نیک، صالح اور عفیف خاتون سے نکاح کیا جائے، تاکہ ان کے رحم سے نیک اور صالح اولاد پیدا ہو۔ پاکدامن اور با حجاب خواتین ان قیمتی جواہرات کی مانند ہیں کہ جس تک ہر کسی کی پہنچ نہیں ہوتی۔ مؤمن مردوں اور عورتوں کو چاہیئے کہ فاسد افراد سے شادی نہ کریں۔

بیوی اور شوہر اگر خود پاکدامن ہوں اور صاحب حسب و نسب ہوں تو بہترین انداز میں بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں۔

حوالہ جات:

احسانبخش، صادق، «آثار الصادقین»، جلد سیزدهم، گیلان: روابط عمومی ستاد برگزاری نماز جمعه گیلان، چاپ اول، 1375ش۔

نهج البلاغه

طباطبائی، سیدمحمّدحسین، «تفسیر المیزان» جلد پانزدهم، ترجمه ی سیدمحمدباقر موسوی همدانی، بنیاد علمی و فرهنگی علامه طباطبائی، چاپ سوم، 1367ش۔

سید قطب، «تفسیر فی ظلال القرآن»، «المجلد الرابع»، القاهره: دارالشروق، 1412، ه.ق۔

العروسی الحویزی، عبدعلی بن جمعة، تفسیر نورالثقلین، الجزء الثالث، قم: دارالكتب العلمیّة، الطبعة الاولی، بی تا۔

السیوطی، جلال الدین، «الدر المنثور فی التفسیر بالمأثور»، الجزء الخامس، تهران: المكتبة الاسلامیه و مكتبة الجعفری، الطبعة الاولی، بی تا۔

الرازی، فخرالدین، «مفاتیح الغیب المشتهر بالتفسیر الكبیر»، الجزء السادس، الطعبة الاولی، بی تا۔

الزمشخری، محمودبن عمر، «الكشاف عن حقائق غوامض التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوه التاویل»، الجزء الثالث، بی جا: الطبعة الاولی، ص177.

قمی، عباس، «سفینة البحار»، الجزء الثانی، بیروت: دارالمرتضی، الطبعة الاولی، بی تا۔

المجلسی، محمّدباقر، «بحارالانوار»، الجزء الثامن و الستون، بیروت، مؤسسة الوفاء، الطبعة الثانیة، 1403 ه.ق۔

الحرانی، حسن بن علی، «تحف العقول عن آل رسول»، بیروت: منشورات مؤسسه الاعلمی للمطبوعات، الطبعة الخامسة، 1394 ه.ق۔

كلینی، محمّدبن یعقوب، «اصول الكافی»، جلد چهارم، ترجمه ی محمّدباقر كمره ای، انتشارات اسوره، چاپ دوم، 1372ش۔

هاشمی رفسنجانی، اكبر، «تفسیر راهنما» جلد چهارم، قم: مركز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی حوزه علمیه قم، چاپ اوّل، 1376ش۔

الحلی، ابوالقاسم نجم الدین جعفربن الحسن، «المختصر النافع» جلد اوّل، مؤسسة مطبوعات دینی، چاپ پنجم، 1374ش۔

موسوی خمینی، روح اللّه، «تحریرالوسیله»، جلد سوم، ترجمه ی علی اسلامی، قم: دقتر انتشارات اسلامی، چاپ دوازدهم، 1374ش۔

مكارم شیرازی، ناصر و دیگران، «تفسیر نمونه» جلد چهاردهم، تهران: دارالكتب الاسلامیة، چاپ هیجدهم، 1378، 366.

[47] طبرسی، ابوعلی فضل بن حسن، «تفسیر مجمع البیان»، جلد هفدهم، ترجمه ی احمد بهشتی، مؤسسه انتشاراتی فراهانی، چاپ اوّل، 1354.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .