تحریر: خیر اللہ پروین
حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی دفعہ 110 نے منتخب صدر کی صدارت کے حکمنامے پر دستخط کو رہبر معظم انقلاب کے فرائض و اختیارات کے دائرے میں رکھا ہے۔ تنفیذ (الیکشن میں صدر کو ملے عوامی مینڈیٹ کی توثیق) فقہی لحاظ سے ایک پرانی اور مشہور اصطلاح ہے اور اسلامی انقلاب کے بعد یہ لفظ ملک کے قانونی نصاب میں شامل ہو گيا ہے۔ سب سے پہلے "تنفیذ" کے قانونی مفہوم اور ماہیت کی طرف اشارہ کیا جائے گا اور پھر اسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کے قوانین کی رو سے اس سلسلے میں پائے جانے والے اہم ترین سوالوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ جیسے یہ سوال کہ تنفیذ کے عمل کا اعتبار کہاں تک اور کس طرح کا ہے؟ کیا تنفیذ ایک دکھاوے کا کام ہے جو ولی فقیہ کی جانب سے کیا جاتا ہے یا یہ ایک قانونی اقدام ہے؟ تنفیذ کے کیا قانونی اثرات ہیں؟
سب سے پہلے ضروری ہے کہ مذکورہ بالا سوالوں میں سے آخری سوال کا جوب دیا جائے اور وہ یہ ہے کہ ہر قانونی نظام اپنے سماجی اقدار اور چلن نیز روایات و تجربات کی بنیاد پر کچھ اصول و قوانین وضع کرتا ہے جو ممکن ہے کہ دوسرے قانونی نظاموں سے الگ ہوں اور ایسا نہیں ہے کہ سارے قانونی نظام یکساں اور ایک دوسرے کے مشابہ ہوں، جس طرح سے کہ کامن لا کا قانونی نظام، رومی و جرمن قانونی نظام سے الگ ہے اور ممکن ہے کہ ہر قانونی نظام کے سو سے زیادہ قانونی سسٹم ہوں۔ یہاں تک کہ ان میں سے ہر سسٹم ایک دوسرے سے الگ ہے اور کسی ملک میں، جس کا ایک قانونی نظام ہے، ممکن ہے کہ پچاس قانونی سسٹم ہوں، بنابریں اس سلسلے میں ہر ملک کا مطمح نظر اور رویہ الگ ہو۔ جو چیز قانونی نظاموں کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کا سبب بنتی ہے وہ بنیادیں ہیں۔ بنیاد وہی چیز ہے جو قانونی اصول و قواعد پر عمل کو لازمی بناتی ہے۔ ایران کے اسلامی جمہوری نظام میں تنفیذ کے بارے میں بھی، اس بات کے پیش نظر کہ اسلامی جمہوریہ کا قانونی نظام، دوسرے قانونی نظاموں سے الگ ہے اور وہ بالعموم اسلامی بنیادوں پر اور بالخصوص شیعہ فقہ کی اساس پر مبنی ایک نظام ہے اور چونکہ صدر مملکت، انتظامیہ کے سربراہ کے منصب پر ایسے فیصلے کرتا ہے اور ایسے اقدامات انجام دیتا ہے جو ولایت کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے انتظامیہ کے سربراہ کے منصب سے صدر کے فیصلے یا اقدامات، ولایت کے منصب کی نیابت میں ہوتے ہیں اور انھیں پہلے سے ولی فقیہ سے حاصل اجازت یا مسلسل اجازت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے بغیر ان کا کوئي اعتبار اور حیثیت نہیں ہوگي۔ تنفیذ کے پروگرام میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صدر کو قانونی طور پر منصوب کرنے کے علاوہ، جس کی نظیر دوسرے ملکوں میں بھی پائی جاتی ہے، اس عہدے کو قانونی جواز فراہم کرنا ہوتا ہے۔
تنفیذ کا فلسفہ
تنفیذ ایک اہم قانونی اور شرعی مفہوم ہے جس کے معنی "باطل قرار دیے جانے کے قابل کسی قانونی عمل کو اعتبار عطا کرنا" ہے۔ دوسرے الفاظ میں تنفیذ یا عوامی مینڈیٹ کی توثیق ایک ایسا عمل ہے جس کے بموجب ایک شخص، ایک قانونی عمل کو باطل کرنے سے چشم پوشی کر سکتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ تنفیذ کا فلسفہ کیا ہے اور عوام کی جانب سے صدر کے انتخاب کے بعد رہبر انقلاب کی طرف سے اس کی توثیق اور تائید کی کیا ضرورت ہے؟ اس سوال کے جواب میں کہنا چاہیے کہ ولایت فقیہ کے نظریے کی بنیاد پر، امام معصوم علیہ السلام کی غیبت کے زمانے میں، ولایت و ریاست عامہ، ایک عادل اور اہل فقیہ کے ذمے ہے اور اس کے علاوہ کسی بھی دوسرے کی ولایت کو طاغوت سمجھا جاتا ہے۔ اس نظریے کی بنیاد پر معاشرے کے امور کی زمام اس کے ہاتھ میں ہے اور حکومتی عہدیداران کو اس کی اجازت سے ہی قانونی جواز حاصل ہوتا ہے۔ دوسری طرف معاشرے کے انتظامی امور بھی، ولایت کے دائرے میں آتے ہیں اور اسی وجہ سے انتظامیہ کے سربراہ کو ولی فقیہ کی جانب سے نصب کیا جانا چاہیے یا اسے ولی فقیہ کی اجازت حاصل ہونی چاہیے ورنہ اس کے پاس قانونی جواز نہیں ہوگا۔ امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے ولی فقیہ کی جانب سے صدر مملکت کو منصوب کیے جانے پر مسلسل تاکید کی ہے۔ انھوں نے 4 اکتوبر 1979 کو ماہرین کونسل کے نمائندوں سے خطاب میں کہا تھا: "اگر فقیہ کا عمل دخل نہ ہو، ولایت فقیہ کا عمل دخل نہ ہو تو پھر طاغوت ہے۔ اگر یہ کام، اللہ کے حکم سے نہ ہوں، صدر مملکت، فقیہ کی جانب سے منصوب نہ ہو تو وہ غیر قانونی ہے۔ جب وہ غیر قانونی ہو گيا تو طاغوت ہے، اس کی اطاعت، طاغوت کی اطاعت ہے۔" انھوں نے اپنے اسی خطاب میں ولایت فقیہ کی خصوصی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا: "صدر کے حکمنامے پر دستخط ولی فقیہ کے اختیارات میں سے ہے اور بالکل واضح ہے کہ اگر بالفرض یہ ثابت ہو جائے کہ اگر کوئي شخص نگراں ادارے کو فریب دے کر آخری راؤنڈ میں پہنچا ہو تو رہبری کا عہدہ رکھنے والا شخص چاہے تو اس کے حکمنامے کی توثیق نہ کرے لیکن اس چیز کا امکان بہت کم بلکہ تقریبا ناممکن ہے۔"
صدارتی حکمنامے کی توثیق کی دلیلیں
اول، آئين کے ماہرین کونسل کے تفصیلی مذاکرات: اسلامی جمہوریہ ایران کے آئين کا آخری جائزہ لینے والی کونسل کے بعض اراکین کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ رہبر انقلاب کے دستخط کو قانونی جواز عطا کرنے والا مانتے تھے۔ آئين کی دفعہ 110 کے مسودے کے جائزے کے زمانے میں پارلیمنٹ کے رکن رہے جناب فاتحی کہتے ہیں کہ میرے لیے یہ بات واضح نہیں ہوئي کہ صدر کے حکمنامے پر دستخط صرف ایک دکھاوے کا کام ہے یا اگر اس پر رہبر کے دستخط نہ ہوئے تو کیا ہوگا؟ ڈپٹی اسپیکر آيت اللہ شہید بہشتی ان کے جواب میں کہتے ہیں: "نہیں جناب! یہ تنفیذ ہے۔" (صدر کو ملے عوامی مینڈیٹ کی توثیق ہے۔) اس سے پہلے آيت اللہ منتظری نے بھی نظام کی اسلامیت اور جمہوریت کے درمیان پائے جانے والے رشتے کے بارے میں کہا تھا: "اگر ایک صدر کو پوری قوم بھی ووٹ دے دے لیکن فقیہ اور مجتہد اس کی صدارت کی توثیق نہ کرے تو میرے لیے اس کے نفاذ کی کوئي گارنٹی نہیں ہے اور اس کی حکومت جابرانہ حکومتوں میں سے ہوگي۔"
دوسرے، صدارتی الیکشن کا قانون: صدارتی الیکشن کے قانون میں، جو 26 جون 1985 کو منظور ہوا، صراحت کے ساتھ عہدۂ صدارت کے حکمنامے پر رہبر کے دستخط اور تنفیذ کی بات کہی گئي ہے۔ اس قانون کی پہلی شق میں کہا گيا ہے: "اسلامی جمہوریہ ایران کی صدارت کی مدت چار سال ہے اور رہبر کی جانب سے اس کے اعتبار نامے کی توثیق کی تاریخ سے اس کا آغاز ہوگا۔" اس قانون کا کئي بار جائزہ لیا گيا ہے اور اس میں اصلاح کی گئي ہے لیکن تمام اصلاحات میں مذکورہ بالا متن بغیر کسی تبدیلی کے باقی رہا ہے، بنابریں عام قانون ساز کی نظر سے بھی صدارت کے حکمنامے پر رہبر کے دستخط لازمی ہیں۔
کیا تنفیذ ایک دکھاوے کا کام ہے؟
ولی فقیہ کی جانب سے صدارت کے حکمنامے کی تنفیذ کے قانون کا مطلب اس کا دکھاوا ہونا اور دیگر پروگراموں میں ایک اور پروگرام کا اضافہ کرنا نہیں ہے۔ اس قانون کا مطلب یہ ہے کہ رہبر انقلاب کے دستخط کے بغیر، صدارت کو قانونی جواز ہی حاصل نہیں ہوتا اور وہ شرعی طور پر اس میدان میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہمارے مذہبی عقائد اور بنیادی فقہی نظریات بھی اور ہمارا آئين بھی، جس کے لیے ہم یہی مانتے ہیں کہ اس کی کوئي بھی دفعہ اور شق دکھاوے کے لیے نہیں لکھی گئي ہے، اس بات کی تائيد کرتا ہے۔ دستخط کا دکھاوا ہونا، ایک عامیانہ اور غیر علمی سوچ ہے جو کسی بھی صورت میں آئين میں مدنظر نہیں رکھی گئي ہے۔ بنابریں یہ دستخط، صدر مملکت کے بنیادی کاموں کے مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔ اگر ہم قانونی لحاظ سے بھی بات کرنا چاہیں تو الیکشن میں عوام کی جانب سے منتخب شدہ صدر کو، رہبر کی جانب سے اس کے حکمنامے کی تنفیذ اور اس کے بعد حلف برداری کی تقریب سے پہلے صدر مملکت نہیں کہہ سکتے کیونکہ صدر مملکت کے اقدامات، عوام کے حقوق اور فرائض میں مداخلت ہیں اور اس کے لیے ولی فقیہ کی اجازت کی ضرورت ہے اور اس اجازت پر آئين میں، صدر کے حکمنامے پر رہبر کے دستخط کے ذیل میں تاکید کی گئي ہے۔
تنفیذ کا دورانیہ اور اس کا جاری رہنا
جیسا کہ بیان کیا گيا، صدر مملکت کو صرف اپنی ذمہ داری شروع یا عہدۂ صدارت پر کام شروع کرنے کے مرحلے میں ہی اپنے فیصلوں اور اقدامات کے لیے قانونی جواز کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے اپنی ذمہ داری جاری رکھنے کے لیے بھی اس قانونی جواز کی ضرورت ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئي اکثریتی ووٹ حاصل کر لے اور رہبر اس کے حکمنامے پر دستخط بھی کر دیں تو وہ لازمی طور پر اگلے چار سال تک صدر رہے گا، جی نہیں، رہبر کے دستخط اور ان کی تائيد صدر کو مسلسل حاصل ہونی چاہیے اور جب بھی رہبر اپنی تائيد واپس لے لیں، یعنی تنفیذ کو واپس لے لیں تو صدر اپنا قانونی اور فقہی جواز کھو دے گا۔ اسی وجہ سے امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے اپنے زمانے کے تمام صدور کے لیے جو حکمنامے جاری کیے ان میں عوامی مینڈیٹ کی توثیق کے بعد واضح الفاظ میں کہا کہ میری توثیق مشروط ہے اور اس بات پر منحصر ہے کہ آپ شرعی اصولوں کی پابندی کریں، نظام کے قانونی اصولوں کی پابندی کریں اور اگر ایک جملے میں کہا جائے تو ایک صدر کی شرائط کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے بھی اپنی رہبری کے دوران عہدۂ صدارت کے جس حکمنامے پر بھی دستخط کیے اس میں اسی روش پر قائم رہے ہیں اور انھوں نے تنفیذ کے لفظ سے بھی اور اس شرط سے بھی استفادہ کیا ہے کہ میری تائيد اور تنفیذ تب تک قائم ہے جب تک آپ قانونی اور شرعی اصولوں کی پابندی کریں گے۔
بنابریں شرعی اجازت اور صدر کو منصوب کیا جانا، مشروط ہے اور اسے دائمی حیثیت حاصل نہیں ہے، اس معنی میں کہ یہ حکمنامہ اور ملک کے انتظامی امور میں تصرف کا قانونی جواز مشروط اور محدود ہے۔