حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حوزہ علمیہ جامعہ عروۃ الوثقیٰ اور تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی نے جمعہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کے المیے پر ہر طرف چھائی شرمناک خاموشی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ زمین پر انسانیت باقی نہیں بچی۔ آج جب دنیا میں صرف دو طبقات باقی رہ گئے ہیں جن کے لیے دنیا ایک چراگاہ یا شکارگاہ سے زیادہ کچھ نہیں، ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ایک تیسرے طبقے کو اس دور کے لیے حجت کے طور پر پیش کیا ہے، جو حماس، حزب اللہ، انصار اللہ اور حشد الشعبی جیسے مجاہدین پر مشتمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان نما بھیڑوں اور بھیڑیوں کے درمیان ان خوبصورت انسانی کرداروں کو نمایاں کیا ہے اور ان کی ثابت قدمی اور ظلم کے خلاف مزاحمت کو عظیم مثال بنا دیا ہے۔
انہوں نے حماس کے سربراہ شہید یحییٰ سنوار کو اسی کردار کی خوبصورت مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ان کے نام سے بھی خوفزدہ رہتا تھا، اور دشمن ان کی ممتاز خصوصیات کا کھل کر اعتراف کرتا رہا کہ ان میں نہ کوئی لچک تھی اور نہ ہی خوف۔ دشمن میڈیا یہ تسلیم کرتا رہا کہ ان کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں تھی، اور 22 سال قید کے بعد ان کی رہائی کو اپنی غلطی قرار دیتا رہا۔ ان کی شہادت کے بعد جب یہ کہا گیا کہ اب اسرائیل محفوظ ہو چکا ہے، تو اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کتنی عظیم شخصیت کے حامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ شہید یحییٰ سنوار 7 اکتوبر کے آپریشن طوفان الاقصیٰ کے منصوبہ ساز اور فکری رہنما تھے۔ انہوں نے اس آپریشن کو نہایت مہارت سے ڈیزائن کیا، مجاہدین کی تربیت کی، اور اسے اس قدر خفیہ رکھا کہ دنیا کی بہترین جاسوسی ایجنسیاں بھی بے خبر رہیں۔ اسرائیل کی تاریخ میں اتنا کامیاب حملہ کوئی عرب ملک مل کر بھی نہیں کر سکا، اور اسرائیل اب تک اپنے یرغمالیوں کو آزاد کروانے سمیت اپنا ایک بھی ہدف حاصل نہیں کر سکا۔ ان کی شہادت کنکریٹ بنکر میں چھپ کر نہیں، بلکہ فرنٹ لائن پر، زخمی حالت میں دشمن پر حملہ کرتے ہوئے ہوئی۔ ان کی دلیری نے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا، اور اسی حالت میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔ ان کی زندگی عظیم تھی اور ان کی شہادت اس سے بھی زیادہ عظمت کی حامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ مجاہدین حقیقتاً کردارِ کربلا کی عملی تصویر ہیں، اور اسرائیل یہ خام خیال پال رہا ہے کہ یحییٰ سنوار کی شہادت سے حماس کا خاتمہ ہو جائے گا، لیکن دشمن یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مزاحمت ایک روح ہے، جسے موت سے فنا نہیں کیا جا سکتا۔ دشمن کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان عظیم مجاہدین کی شہادتیں فلسطینی تحریک کو مزید تقویت بخشیں گی اور نئی نسل کے جوانوں کو مزاحمت کے میدان میں لے آئیں گی۔ اللہ کے اذن سے ان ابابیلوں کے ہاتھوں ابرہا کے لشکر کی نابودی یقینی اور قریب ہے۔