۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
علامہ نیاز نقوی

حوزہ/نائب صدر وفاق المدارس الشیعہ کا کہنا تھا کہ عراق کا قصور اس ملک کی اکثریتی آبادی کا شیعہ ہونا بھی ہے۔ صدر اور وزیراعظم شیعہ رہے جبکہ صدام کی باقیات بھی نہیں چاہتیں کہ عراق میں سیاسی استحکام ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل کے مرکزی نائب صدر علامہ سید نیاز حسین نقوی نے کہا ہے کہ عراق میں ہونیوالی بدامنی کے ذمہ دار امریکہ ،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور صدام حسین کی باقیات ہیں جو مقدس سرزمین کے عوام کو اپنے زیر اثر کرنا چاہتی ہیں۔ کیونکہ ایران کے زیر اثر آنے کی وجہ سے عراق کیخلاف سازشوں کا جال پھیلا دیا گیا لیکن عراقی عوام ان استعماری ہتھکنڈوں کو جانتے ہیں کہ بلوائیوں کی مذموم کارروائیوں کے پیچھے امریکی خواہشات ہیں۔ ان شاءاللہ عراقی عوام ان ان مذموم ہتھکنڈوں کا مقابلہ کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ صدام حسین کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد امریکہ کو بڑی سرمایہ کاری کے بعد توقع تھی کہ عراق اس کے زیر اثر آ جائے گا لیکن ایسا نہ ہوا اور عراق، ایران کے زیر اثر ہوگیا، حتیٰ کہ حالات یہاں تک پہنچ گئے کہ جب چند ماہ پہلے ٹرمپ عراق میں قائم امریکی چھاونی پر امریکی افواج سے ملاقات کیلئے گیا تو عراق کے وزیراعظم اور صدر نے نہ صرف امریکی صدر سے ملاقات نہیں کی بلکہ احتجاج کیا کہ عراقی حکومت کی اجازت کے بغیر وہ ملکی حدود میں داخل کیوں ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ کو اتنا تکبر ہے کہ افغانستان میں ابھی چند دن پہلے ٹرمپ اپنے امریکی فوجیوں سے ملنے کیلئے گیا تو افغان صدر اشرف غنی خود ٹرمپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

علامہ نیاز نقوی نے کہا ہے کہ عراق کا قصور اس ملک کی اکثریتی آبادی کا شیعہ ہونا بھی ہے۔ صدر اور وزیراعظم شیعہ رہے جبکہ صدام کی باقیات بھی نہیں چاہتیں کہ عراق میں سیاسی استحکام ہو۔ اسی طرح سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی خواہش کیخلاف عراق ایران کے زیر اثر آ گیا، جس کا پچھتاوا ان اتحادی ممالک کو ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراقی عوام علم دوست، مرجعیت اور رہبریت پر یقین رکھتے ہیں۔ آیت اللہ سیستانی کے بیانیہ کے بعد وزیراعظم عبدالمہدی نے استعفی دے دیا ہے، حالانکہ آیت اللہ سیستانی کا آیت اللہ خامنہ ای کی طرح ہے کوئی حکومتی امور میں کردار نہیں، اخلاقی اور دینی حوالے سے آیت اللہ سید علی سیستانی کا اثرورسوخ موجود ہے لیکن ان کی کوئی حکومتی حیثیت نہیں، وہ صرف مرجع تقلید ہیں جبکہ ایران میں آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نہ صرف یہ کہ سربراہ مملکت ہیں بلکہ وہ ایک مرجع تقلید بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق کی سیاسی جماعتوں اتحاد نہ ہونا بھی سیاسی عدم استحکام کا باعث بنا ہے، کیونکہ اتحادی حکومت میں مختلف جماعتیں اور گروہ شامل ہیں جو اپنے اپنے منشور اور اپنے علاقے کی بات کرتے ہیں، اور ملکی وحدت اور ترقی ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، عراق میں بدامنی موجود ہیں۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ عراقی حکومت، عوام کے پانی اور بجلی جیسے بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی لیکن وزیراعظم عبدالمہدی کے استعفی کے بعد بھی احتجاج کا جاری رہنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بدامنی کے مقاصد صرف وزیراعظم کا استعفی اور حکومت کا ہٹانا نہیں بلکہ اس کے مقاصد ہیں کہ عراق کو بھی افغانستان، شام، لیبیا اور یمن بنا دیا جائے لیکن توقع ہے کہ عراقی عوام امریکی سازش کو ناکام بنائیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .