۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
علامہ ساجد نقوی

حوزہ/ قائد ملت جعفریہ پاکستان نے کہا کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے فلسفے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی لئے سعی و کوشش کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی نے 25رجب المرجب کو ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم ؑ کے یوم شہادت پر کہا ہے کہ 35 سالوں پر محیط دور امامت میں آپ کی علمی، روحانی اور معاشرتی زندگی، آپ کے خاندان، اصحاب اور شاگردوں سے متعلق واقعات اور علمی اور کلامی مباحثوں کے تذکروں کے بغیر آپ کے حالات زندگی کا احاطہ ممکن نہیں اسی طرح امام موسی کاظم ؑ نے اپنے جد امجد پیغمبر گرامی کے عمل و کردار کو اپناتے ہوئے جب یہ محسوس کیا کہ اس وقت کی منحرف قوتیں دین اسلام کے عقائد و نظریات اور تہذیب و اقدار کو مسخ کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف ہیں تو آپ نے ان قوتوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے میں ذرا بھی تامل سے کام نہ لیا چنانچہ انہیں اس عمل کی پاداش میں کئی سال قید و بند کی صعوبتوں سے دوچار کیا گیا اور بالاخر امام برحق کی شہادت بھی انہی تکالیف کو برداشت کرتے ہوئے ہوئی۔

علامہ ساجد نقوی کا مزید کہنا ہے کہ امام موسی کاظم ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی سیرت و کردار پر عمل پیرا ہوکر عصری تقاضوں پر منطبق قرآن تفسیر کی تعبیر و تشریح اور اسلامی معارف کی روشن تصویر کو حقیقی معنوں میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں امامت اور سیاسی حاکمیت کے فلسفے کو واضح کیا اور اسی طرح عدل و انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل کی لئے سعی و کوشش کی جس کی خاطر پیغمبر گرامی اور دیگر انبیائے کرام مبعوث ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ امام موسی ابن جعفر ؑ کی امامت کا آغاز ایک مشکل ترین زمانے میں ہوا جب وہ اپنے والد گرامی حضرت امام جعفر صادق ؑ کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے تو اس وقت صورتحال یہ تھی کہ بنو عباس اپنی خلافت کی ابتدا میں پیدا ہونے والے داخلی اختلافات اور جنگوں سے فراغت پاچکے تھے اور اپنے مخالفین کی سختی سے سرکوبی کرنے کے بعد انہیں خاموش کررہے تھے۔ چنانچہ جلاوطنی اور اسارت جیسے کٹھن اور مشکل مراحل میں بھی امام ؑ نے عزم و استقلال اور جرات و بہادری سے مصائب کا مقابلہ کیا ایک ایسی شخصیت جو صرف حالات پر منطبق نظریات و دینی نظریات اور اسلامی معارف کو کھول کر بیان کررہی ہو انہیں کبھی جلاوطنی، کبھی اسیری اور کبھی روپوشی جیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے چنانچہ روایت کے مطابق ”ایک مدت تک امام موسی کاظم ؑ مدینہ میں موجود ہی نہ تھے بلکہ شام کے گاﺅں و دیہاتوں میں مخصوص اندازمیں گزر بسر کرتے رہے،چناچہ مورخین کو تاریخ اسلام قلمبند کرتے وقت حضرت کے حالات زندگی کے جس پہلو پر زیادہ دقت سے توجہ دینی چاہیے تھی وہ آپ کی زندگی کا عظم اور بے نظیر ”طویل المدت اسیری،، کا پہلو ہے جس کے پیچھے طویل اور صبر آزما جدوجہد کارفرما تھی۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان نے ائمہ اطہار ؑ کی سیرت و کردار اپنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ شاہد ہے کہ حق و صداقت کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والی عظیم المرتبت شخصیت کی زہر سے شہادت کے بعد بھی بدی اور جبر کی قوتیں خائف نظر آئیں چنانچہ ظالم حکمران آپ کے جنازے اور قبر مطہر سے خوفزدہ تھے یہی وجہ ہے کہ جب قید خانے سے آپ کا جنازہ باہر نکالا جارہا تھا تو حکومتی مشینری یہ اعلان کررہی تھی کہ حکومت وقت سے بغاوت کرنے والے کا جنازہ ہے تاکہ آپ کی شخصیت اور کردار کو لوگوں کی نظرو ں میں داغدار کیا جاسکے لیکن اس میں ناکام ہوئے، آپ کا مزار مقدس کاظمین بغداد میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔

آخر میں علامہ ساجد نقوی نے عراق بغداد الکاظمیہ پل کے قریب زائرین پرہینڈ گرنیڈ حملہ ہوا جس سے دس زائرین زخمی ہوئے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی شناخت کرکے انہیں گرفتار کیا جائے اور کیفر و کردار تک پہنچایا جائے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .