حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لکھنؤ/ ۱۲؍ مارچ جمعہ ۲۷؍ رجب المرجب یوم بعثت حضرت خاتم الانبیاء صلعم صبح ۸بجے یوم بعثت کی ایک خصوصی سالانہ تقریب موہانی پھاٹک کٹرہ ابو تراب خاں لکھنؤ میں ہوئی۔ سازمان جوانان حیدری کے روحِ رواں الحاج سید محمد جعفر رضوی نے حاضرین کو باخبر کیاکہ ایک متنازعہ شخصیت نے جس کا نام بھی لینا اس کو شہرت دینا ہے۔ سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرکے قرآن مجید میں سے ۲۶؍ آیات کو نکال دینے کے حکم دینے کی درخواست کی ہے۔ یہ سراسر سازشی رٹ ہے قرآن اور اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش ہے ۔ جن آیات کی جانب اشارہ ہےان کی شان نزول مقامی حالات کے پیش نظر تھی ان آیات کا ہندوستان اور برادران ہنود سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ چونکہ چند صوبائی الیکشن قریب ہیں لہٰذا یہ ہندو مسلم اور سنی شیعہ تفریق پیدا کرنے کی ایک سیاسی کوشش ہے جس کا آلۂ کار رٹ داخل کرنے والے جیسے افرادہیں موجودہ حالات ہر ہندوستان کو ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ ملک کو کمزور کرنےکی ایسی سازشیں کامیاب نہ ہونے پائیں۔ اس موقع پر موجود مولانا سید محمد جابر جوراسی نے وضاحت کی کہ چند سال پہلے اِسی لکھنؤ کے ایک خانوادہ نے باقاعدہ مہم چلا رکھی تھی کہ شیعہ تحریف قرآن کے قائل ہیں جس کی ردّ میں سرکردہ علماء کی تحریروں اور قطعی دلائل کے ساتھ اپنے مضامین میں کی تھی اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اس شرمناک تحریک کا آئندہ نتیجہ کیا ہوگا اور وہ نتیجہ آج سامنے ہے۔ ہم سب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن مجید غیر تحریف شدہ ہے اور اسی قرآن کے اوپر ہمارے تمام ائمہ علیہم السلام کاعمل رہا ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اس کی چند آیات ہی کو سہی مشتبہ بناتا ہے وہ منکرِ ضروریات دین اور دین سے خارج ہے۔ اس کا کسی فرقہ کیا اسلام ہی سے تعلق نہیں ہے تمام علمائے اسلام جن میں علمائے شیعہ بھی شامل ہیںانہیں اپنے موقف کو بہت واضح کردینا چاہئے تاکہ باطل کی سازشیں کامیاب نہ ہوسکیں۔ یہ بھی پتہ لگانے کی کوشش کرنا چاہئے کہ ایک جاہلِ قرآن کو مذکورہ قرآن کی ۲۶؍ آیتوں کی نشاندہی کس نے کی ہے اور انہیں کس نے غلط انداز سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے۔
یہ دور غیبت ہے دورِ غنیمت نہیں!
اللہ رب العزت ارحم الراحمین ہے ، ستار العیوب ہے، ورنہ ہم ،آپ، اوریہ وہ ،بلکہ زیادہ ترافراد آج اُس مصنوعی عزّ و شرف کی گدّی پر دراز نہ ہوتےجس پر وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔ اس الٰہی سہولت کامسلسل غلط فائدہ اٹھایا گیا اور اس دورِ غیبت میں اگر چہ مرجعیت کا چراغ روشن ہے اور دین کے مخلص کارندے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے محمدی مشن کو آگے بڑھانے میں تن من سے مصروف ہیں مگراس دورِ غیبت کی نیم تاریکی سے سوءِ استفادہ یہ کیا گیا کہ کچھ دیدہ دلیروں نے اِ س دَور کو دورِ غنیمت سمجھ کر منمانے کاموں کو انجام دینے کی ٹھان لی جیسے نہ خداوندِقہار و جبار دیکھ رہا ہو اور نہ وہ حجتِ خداؑکی نگاہوں میں ہوں ، ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ قومی اداروں اور اوقاف کی جائیدادوں کو بھی بازیچۂ طفلاں سمجھ لیا گیا یہ مرض گردشِ ایّام کے ساتھ مزید گہرا ہوتا چلا جارہا ہے ۔ حُبِّ نفس ، حُبِّ جاہ، حُبِّ مال ایسے نفسانی امراض ہیں کہ جن سے ہمارا قومی معاشرہ بُری طرح جوجھ رہا ہے ۔ کچھ لوگ وہ ہیں جو بڑی شدت سے مال لوٹنےمیں لگے ہوئے ہیں ، کچھ وہ ہیں کہ جوفنا ہوجانے والی وقتی عزّت حاصل کرنے کےلئے دونوں ہاتھوں سے مشتبہ مال لُٹا رہے ہیں، اِس مال کے ذریعہ وہ کوئی عہدہ حاصل کرلیتے ہیں اور پھر اس عہدے کا حوالے دے دے کر وہ اور ان کے حوالی و موالی ان کو دیگر مومنین سے ممتاز قرار دینےمیں جٹے رہتے ہیںاور یہ مطلب پرست ساتھیوں کے نرغے میں گھِرے ہوئےسرِ غرور بلند کرتے رہتے ہیںجو خدا وند عالم کے نزدیک انتہائی نا پسندیدہ اور اس کے غضب کو دعوت دینے والاعمل ہے ۔ کبھی تو یہ مستحب تعلیم اسلام ’سلام ‘ کرنایا جواب سلام دینا بھی اپنی کسر شان سمجھتے ہیں ،اور اگر کبھی سلام کرتے بھی ہیں تومصنوعی اخلاق کا مظاہرہ کرتےہوئے دوسرے کی تعظیم یا اس کو سلام کرنے میں تاحد رکوع جھک جاتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ مدِّ مقابل جواب سلام میں ان کے قدموں میںسر ڈال دے۔ در اصل یہ افراد وہ ہیں جن کے لئے اپنا نفس ہی سب کچھ ہے ،ان کے نزدیک العیاذ باللہ وہی خدا ہے اوریہ دوسروں سے بھی اُسی کی پرستش کے متمنی رہتےہیں۔ ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں کہ جن کا دامن طرح طرح کی آلائشوں کی وجہ سے بے حد آلودہ ہوتا ہے ، ان کا اگر اصلی مکروہ کردار منظر عام پر آجائے تو لوگوں کا تعفّن سے سانس لینا دوبھر ہوجائے، زندگی کے شب و روز وہ اپنے رب کی اطاعت و عبادت میں بسر کرنےکے بجائے طرح طرح کی سازشیں کرنے اور طرح طرح کی بدعنوانیوں میں ملوث رہتے ہیں۔ چونکہ اپنی نا مناسب سرگرمیوں کی وجہ سے وہ عوام کے ایک طبقہ کی نگاہوں سے گر جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی ساکھ بحال کرنےکے لئے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں جس سے وہ بقیہ عوام کی نگاہ میں امتیازی حیثیت کےمالک قرار پاجائیںاس کے لئے مظلوم اہل بیت اطہارؑ اور ان کے مشن سے متعلق آثار ہی ان کو ملتے ہیں۔یہ قابل لعنت جسارت ہےاور صریحی ارتکابِ توہین اہل بیت اطہار علیہم السلام ہے۔
ایسے افراد کوئی سیاسی عہدہ حاصل کرلیں ، کوئی سماجی منصب پر فائز ہوجائیں، تو وہ انہیں مبارک ہو کون اِنہیں اس سے روکتا ہے۔ لیکن ایسے افراد مذہب کا سہارا لیتےہیں ، اسلام کی مقدس شخصیتوںسے وفاداری کا اظہار کرتے رہتے ہیں جو اصلاًوفاداری نہیں ان سے بالاعلان غداری ہے ۔ یہ مرض اب ایک دو شہروں دو چار قصبوں اور چارچھ علاقوں کا نہیں ہے بلکہ ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ ہر جگہ کی جو دینی اور مذہبی علامتیں ہیں ان پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کےلئے شب و روز یہ کوشاں رہتےہیں کہیں کامیاب ہوچکےہیں کہیں کامیاب ہونےکی دہلیز پرہیں اور کہیں بیداریٔ مومنین کی وجہ سے ناکام ہوچکے ہیں۔ جہاں یہ کامیاب ہیں اس کا ایک سبب مومنین میں ایمانی بیداری اور ہمت کا فقدان ہے ۔ فارسی مثل ہے ’ خانہ ٔ خالی را دیو می گیرد‘‘جہاں یہ کمزوری اور سنّاٹا دیکھتے ہیں اپنا قبضہ جما لیتے ہیں ۔
دورانِ گفتگو مجھ سے ایک آبادی کی ایک مذہبی عمارت کا ذکر آیا معلوم یہ ہوا کہ ہے تو یہ مذہبی عمارت مگر جسوروں نےماضی بعید میں اس پر ناجائز پیسہ لگا دیا تھا لہٰذا مومنین اِدھر کم متوجہ ہوئے اورزبوں حالی کے طائر اس پر پرواز کرتےرہے۔ اپنی بد اعمالیوں پر پردہ ڈالنے کےلئے بعض علاقوں میں مذہبی مقامات اور مذہبی عمارتوں کی تعمیر کی مثالیںموجود ہیں ۔ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ انتہائی رکیک و ناجائز کاموں کے ذریعہ حاصل کردہ دولت کو مقدس سفروں پر لوگوں کو بھیجنے پر لگایا گیا۔ معلوم یہ ہوتا ہے تشریع یعنی شریعت میں مداخلت کا ایک یہ خود وضع کردہ راستہ نکال لیا گیا ہے کہ چاہے ہزار بُرے کام کرو مگر ایک آدھ نیک کاموں کے ذریعہ جبران ہوجائے گا اور معاملہ برابر ہوجائے گا جو صریحا غلط ہے۔ قرآن مجید کا واضح اعلان ہے: إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّـهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ (سورہ مائدہ آیت ۲۷) فقط صاحبان تقویٰ ہی سے اللہ اعمال (خیر) قبول کرتا ہے۔اوقاف کی جائیداد مذہبی مقامات اور مذہبی عمارتوں پر تسلط بر قرار رکھنے، یاتسلط قائم کرنے میں دو بُروں میں جو حاوی ہوجائے اس کے کامیاب ہونے، یا اچھوں پر تہمت لگا کرانہیں کنارے لگا دینے، خود یا اپنے کارندوں کو مسلط کردینےکی سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مثالیں موجود ہیں۔ان کی مہم بُروں اور برائیوں کے خلاف نہیں ہوتی بلکہ ان کی ساری سرگرمیاںاپنی برائیوں پر پردہ ڈال کر اچھوں اور اچھائیوں کو بدنام کرنے کے لئے ہوتی ہیں تاکہ ان کا اور انہیں جیسوں کا معاشرہ میںبول بالا رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ترجمانِ کردارِ اہل بیت اطہار علیہم السلام ہرگز نہیں ہوتے بلکہ بنی امیہ و بنی عباس کی بداعمالیوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔جائز آمدنی کو نیک کاموں میں لگانا ، حاجت مندوں اور غریبوں کی مدد کرنا، بے سہاروں کو سہارا دینا یہ بہت اچھا اور قابل تعریف کام ہے لیکن الاعمال بالنیات ۔ اعمال کا دار مدار نیتوں پر ہوتا ہے۔ اگر یہ کام فی سبیل اللہ انجام دیئے جائیں تو کیا کہنا؛ اس کے بجائے اگر یہ کام اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنےکےلیے ہوں،اپنا لوہا منوانے کےلئے ہوں، یااپنے قصیدے پڑھوانے کےلئے ہوں تو یہ یاد رکھیں کہ ہمارے امام عصرؑ کو ان کاموں سے تو اذیت ہوہی رہی ہے خود دورِ غیبت بھی کرب سے کراہ رہا ہے۔ ان سارے مسائل کا ایک انتہائی تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ایسے افراد صرف مذہبی کاموں ہی کا سہارا نہیں لیتے بلکہ نام نہاد مذہبی شخصیتوں کی تائید کا سہارا بھی لیتے ہیں اور ان سے اپنے لیے تعریفی کلمات کہلا لیتے ہیں جبکہ مداحی کرنے والوں کی نظر میں میر انیس ؔ مرحوم کا یہ شعرضرور رہنا چاہئے :
مجرئی اپنی ہواکھوؤں سلیماں ہوکر غیر کی مدح کروں شہؑ کا ثنا خواں ہوکر؟
ظاہر ہے جو غیر معتبر کی تائید کرے وہ خود معتبر نہیں رہ جاتا۔ لیکن لباس سے دھوکا تو ہو ہی جاتا ہے۔ ایسے افراد پر یہ طنزیہ شعر صادق آتا ہے:
اتنی نہ بڑھا پاکیٔ داماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ (شیفتہؔ)
وہ مذہبی شخصیتیں کہ جو مال و دولت کی چکاچوندھ سے مرعوب ہوجاتی ہیں ان میں شامی اقتدار سے وفاداری کا عُنصر تو پایا جاتا ہے مزاجِ ابوذر ؓ نہیں پایاجاتا، مزاجِ ابوذر پایا جاتا تو وہ ان اہلِ دولت کو متوجہ کرتے کہ قومی خدمات خوب انجام دیجیئے یہ آپ کے حق میں بہت بہتر ہےلیکن اقتدار کے جھولے پر پینگیں نہ بڑھائیے کمزوررسّی ٹوٹ سکتی ہے۔یہ مقولہ نگاہوں میں رہے کہ رئیس القوم خادمھم ’قوم کا رئیس ان کا خادم ہوتا ہے‘،جبکہ یہاں تو برعکس ہوتا ہے یعنی خادم القوم رئیسہم ’قوم کا (نام نہاد)خادم ان کا رئیس ہوتا ہے‘۔تائید کرنے والوں کا لباس دیکھ کر عوام بہرحال دھوکے میں آجاتے ہیں کہ فلاں شخصیت تو ایسی ہے کہ جس کی تائید مقدس لباس برداروں کے ذریعہ ہورہی ہے۔یہ لباس کا معاملہ سنگین اس وقت اور ہوجاتا ہے جب یہ لباس باطل کا صرف تائیدی ہی نہ ہوبلکہ خود اس میں ملوث ہوجائے۔
ہم اپنے جس وطن عزیزہندوستان میں رہتے ہیں یہاں مختلف قومیں آباد ہیں یہاں ہندو مسلم ،سکھ عیسائی ، سنی شیعہ ، بھائی چارے کی سخت ضرورت ہے اس سلسلےمیں مسلسل کوششیں جاری رکھنا چاہئے اور ایک دوسرے کے مذاہب کا ممکنہ حدود میں احترام بھی کرنا چاہئے لیکن ایک دوسرے کے مذہب میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔افسوس یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ہماری ایک ایسی عبادت گاہ کہ جس کے لئے عدالت عظمیٰ تک نے یہ فیصلہ دے دیا کہ یہ کسی دوسرے کی عبادت گاہ کو مسمار کرکے نہیں بنا ئی گئی ہے۔ پھر بھی چونکہ اعتقاد ( آستھا) کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ نے اُسے دوسرے فریق کے حوالے کردیا۔ لہٰذا پر امن ہندوستانی مسلمان کی حیثیت سے سب نے فیصلہ کو تسلیم کیا۔ مگر کروڑوں کلمہ گویوں کے دلوں کو کوئی ٹھیس نہیں پہنچی، ایسا نہیں ہے۔ دلوں کو اذیت کا آغاز ۲۲؍۲۳دسمبر ۱۹۴۹ ء سے ہوگیا تھا پھر دوبارہ کاری ضرب ۶؍ دسمبر ۱۹۹۲ء کو لگی جس کا سلسلہ بعد میں بھی وقتاً فوقتاً جاری رہا ان زخموں کا مندمل ہونا آسان نہیں۔ افسوس بالائے افسوس یہ ہے کہ مقدمہ میں کامیاب فریق نے اس کامیابی پر اکتفا نہیں کی بلکہ
ع نیا جال لائے پرانے شکاری
حاصل کردہ مذکورہ جگہ پر معبد تعمیر کرنےکا سلسلہ جاری ہے اس سلسلےمیں سال ہا سال سے بے انتہا چندہ وصولاگیا ہے پھر بھی مذہبی نظریات میں مداخلت کرتے ہوئے جلے پر نمک چھڑکنے کا طریقہ یہ نکالاگیا کہ مقدمہ میں ناکامیاب فریق سے نام نہاد بھائی چارے کے عنوان سے چندے کی وصولیابی کا سلسلہ اس تاثر کے ساتھ جاری ہے کہ امت مسلمہ کے افراد خود اس میں حصہ لینا چاہ رہے ہیں ایک حدتک ایسا ہے بھی ۔ چند افراد کہ جو اسلام کے بنیادی نظریہ توحید کو اپنے مذموم مقاصد کی بھینٹ چڑھاتے ہوئے خود بھی ایسا کررہے ہیں اور دوسروں کو بھی آمادہ کررہے ہیں وہ از حد قابل مذمت و لائق برائت ہیں۔ وہ مجبور افراد کہ جن کو جبر و اکراہ یا جان و مال و عزت کی پامالی کے خوف سےاس مہم میں شامل ہونا پڑا ہو یا آئندہ ایسا ہو توان کے سلسلے میں احکام شریعت دیگر ہیںلیکن جن کے لئے ایسا نہیں ہے بلکہ وہ با اختیار ہیں اور بس مال و منصب کی لالچ میں تیزی سے آگے بڑھے چلے جارہے ہیں اور یہ غلط تاثر دے رہے ہیں کہ اس قوم میںسودہ بازی کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس شرمناک مہم میں مقدس لبادوں کو بھی شامل کرنےکی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے اور قوم کے بزرگوں کے بنا کردہ اداروں کو بھی شامل کیا گیا جو انتہائی شرمناک اور قابل اعتراض عمل ہے۔
تمام کلمہ گویوں اور بالخصوص ولایت امیر المومنینؑ کے زیر سایہ پروان چڑھنے والی قوم میں ’’رنگے سیاروں ‘‘کی قطعاً گنجائش نہیں ایسے افراد کواگر الیکش کی قربت کے پیش نظر سیاسی عناصر استعمال کررہے ہیں اور یہ مادی فائدوں کے لئے استعمال ہوتے چلے جارہے ہیں، ان میںاگر ذرا بھی غیرت قومی و دین و شریعت کی وفاداری اور انصاف سے انس ہوتا تو یہ تو کہہ ہی سکتے تھے کہ جب مذکورہ معبد کی تقریبِ سنگ بنیاد میں شامل ایسے قدآور سیاسی رہنماء بھی تھے جن کو اسلامی لباس نہیں بلکہ مسلمانوں کی علاقائی ’’چندگرہ ‘‘ کی ثقافتی علامت کو بھی اپنے سر سے مس کرنا گوارا نہیں یا ایسے سیاسی افراد بھی تھے جو حکمرانی کی کرسی پر بیٹھنےکے باوجود مسلمانوں کے مخصوص تہوار میں عید ملن کو بھی اپنی کسر شان سمجھتے ہوں اس حلقےکی طرف سے ہم کلمہ گویوں سے تعاون کی تمنا انتہائی مضحکہ خیز عمل ہےاور اگر کوئی بغیر مطالبہ کے ایسا کررہا ہے تو کبھی بھی حکمراں جماعت ان پر بھروسہ نہ کرے ۔جو اپنے اللہ کے نہ ہوئے، خلیل اللہ کے نہیںہوئے ، حبیب اللہ کے لئے نہیں ، ولی اللہ امیر المومنینؑ کے نہ ہوئے تو وہ کسی آنے جانے والی حکومت کے وفادار کیسےہوسکتےہیں۔
یہ چند مچھلیاں ہیں جو شفاف تالاب کو گندہ کررہی ہیںکعبہ کو تعمیر کرنے والے حضرت ابراہیمؑ تھے کہ جو جرأت و ہمت کے ساتھ اس وقت پرچم توحید بلند کرکرہے تھے کہ جب قوم میلے ٹھیلے کے لہو و لعب میں پڑی ہوئی تھی ۔ فتح مکہ میں سوارِ دوشِ پیغمبرؐ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام تھے جن کا توحیدی مزاج روز روشن کی طرح واضح ہے۔ انہیں کے فرزند شہید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام نے دین و شریعت کے تحفظ میں سہ روزہ تشنگی اور ننھے ننھے پیاسے بچوں کی الم ناک شہادت کو گوارہ کرلیا ؛ایسی شخصیت کا ماننے والااور اس کا عزادار کبھی دین و شریعت کا غدار نہیںہوسکتا۔ غدار تو وہ تھے کہ جو دولت و منصب کی لالچ میں فرزندِ رسولؐ کو تہہ تیغ کرنے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اصحاب رسول کی لالچی اولاد بھی اس میں شامل تھی مثلا عمر ابن سعد ابن وقاص وغیرہ کہ جو حکومت رے کی لالچ میں اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کربیٹھے۔معروف یا غیر معروف خانوادوں کے ان افراد کو کہ جو عزت سے نامِ حسین علیہ السلام لیتے ہیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ لالچ وچاپلوسی کے امتزاج ہی کا نتیجہ تھا واقعہ کربلا۔ ایسا واقعہ کہ جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی اور نہ ہی مستقبل میں کوئی امکان ہے البتہ یزیدی کردار و افکار کا وجود بہرحال ہے:
یک حسینے نیست کو گردد شہید ورنہ بسیاراند در دنیا یزید
قوموں کے درمیان بھائی چارہ بہت ضروری ہےلیکن دینی معاملات کو ’لکم دینکم ولی دین‘ کی روشنی میں پرکھیں، مذہبی اعمال پر ایک دوسرے کو مجبور کرنا مناسب نہیں اور نہ ہی کسی کو اپنی عبادت سے جبراً روکنا درست ہے، بہت سی باتیں ہیں جو کسی کے یہاں مستحسن اور کسی کے یہاں غیر مستحسن ہیں۔مذکورہ مندر بغیر اصنام کے نہیں ہوگاجن سے اجتناب کا قرآن نےحکم دیا ہے دیکھئے سورہ مائدہ آیت ۹۰ ۔ہمیں صرف اجتناب یا اثم وعدوان میں عدم تعاون کا حکم ہے(دیکھئے سورہ مائدہ آیت ۲)یہاں جائز نہیں کہ طالبان کی طرح ہنود کےمقدسات کی توہین یا ان کی توڑ پھوڑ کریں یا انہیں برا بھلا کہیں ( دیکھئے سورہ انعام آیت نمبر ۱۰۸)ایسا کرنا فساد کو دعوت دینا ہے اور قرآنی حکم ہے لاتفسدوا فی الارض زمین میں فساد برپا نہ کرو۔ (سورہ اعراف آیات۵۶۔ ۸۵) ۔ مرد مسلم کا ملجا و ماویٰ صنم خانے نہیں مرکز توحید کعبہ ہے جس کے سامنے وہ سربسجود ہوتا ہے اورمرتے مرتے بھی اس کا رخ اُسی طرف رہنا ہے۔ حج واجب میں اسے ’اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ‘ کا نعرہ بھی بلند کرنا ہے۔ لیکن مرزا غالبؔ مرحوم نے جسارت کرنے والوں کو متوجہ کردیا تھاکہ :
ع کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ شرم تم کو مگر نہیں آتی
قرآن مجید نے جناب لقمان کی اپنے بیٹے سے یہ نصیحت نقل کی ہے۔ يَا بُنَيَّ لَا تُشْرِكْ بِاللَّـهِ ۖ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ (سورہ لقمان آیت ۱۳) اور اس وقت کو یاد کرو جب لقمان نے اپنے فرزند کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ بیٹا خبردار کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا کہ شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ عمل اصنام پرستی واضح طور سے شرک ہے ۔
مختلف فرقوں کو ایک دوسرے کا پورا خیال رکھنا چاہئے لیکن اپنی شکم پُری کے لیے جو کعبہ اور صنم کدوں میں ہم آہنگی کی سعیٔ لاحاصل کرتا ہے وہ ظلم کرتا ہے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کا صریحی ارشاد ہے:’’ أَخَذَ اللَّهُ عَلَى الْعُلَمَاءِ أَلَّا يُقَارُّوا عَلَى كِظَّةِ ظَالِمٍ‘‘(نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۳، شقشقیہ)(اللہ نے علماء سے یہ عہد لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں)۔ ایسے ہی نازک مواقع ہوتے ہیں کہ جب علماء پر اپنے علم کا ظاہر کرنا واجب ہوجاتا ہے۔
یا د رہے اس سفسطہ سے کام نہیں چلے گا کہ مولفۃ القلوب پر کچھ شرعی رقوم صرف کئے جاسکتے ہیں جہاں ایسا ہوتاہےوہاں ضرورت مند مولفۃ القلوب پر رقم صرف کرنےکی بات ہے، پیٹ بھروں کو کھانا نہیں کھلانا ہے اور پھر اس مذکورہ عنایت کا مقصد منکرین اسلام کو اسلام کی جانب متوجہ کرناہوتا ہے اسلام کو کمزور کرنا نہیں جبکہ عرصۂ دراز سے مسلسل ایک شدت پسند طبقے کی جانب سے اسلام کو کمزور کرنے کی سازشیں جاری ہیں۔ جبکہ اسلام دوسری قوموں کے ساتھ حسن سلوک کی دعوت دیتا ہے، دین کے معاملے میں ’لکم دینکم و لی دین‘ ہے، ’تمہیں تمہارا دین مبارک ہمیں ہمارا دین مبارک‘، لیکن جب انسانیت کا مسئلہ آئے گاتو جہاں بھی غیر مسلم ہندو حضرات و دیگر متاثر ہوں جیسا کہ چمولی اتراکھنڈ کے ہمارے ہم وطن ہندو متاثر ہوئے ہیں، یقینا کسی نہ کسی شکل میں ان سے تعاون و ہمدردی ضرور ہونا چاہیے۔
قوم و ملت کے وقار کا سودا کرنے والوں کو ہوش میں آجانا چاہئے کہ یہ دورِ غیبت ہے دورِ غنیمت نہیں۔ جب انشاء اللہ یہ غیبت کا اندھیرا چھٹے گا امام علیہ السلام تشریف لائیںگے تو ہر ایک کا آنہ پائی کا حساب ہوجانا یقینی ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام کا صریحی اعلان ہے کہ هو المهدی الذی یملأ الارض عدلاً و قسطاً کما ملئت جوراً و ظلماً»(کلینی، الکافی، ج1، ص338)وہ مہدیؑ وہ ہیںکہ جب وہ ظاہر ہوں گے تو زمین کو عدل و انصاف سے اس طرح پُر کردیں گے جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہوگی۔(جاری)