حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ کفارہ میں کیا چیز دی جائے؟ اور یہ سوال بہت اہم ہے۔
بعض خیراتی ادارے کفارہ کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں اور بعض اوقات مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے اشتباہات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ دقت کرنے کی ضرورت ہے کہ کفارہ اور عید الفطر کے فطرے کے درمیان بہت زیادہ فرق ہے۔ عید الفطر کے فطرہ میں مستحق فقیر کو پیسے بھی دے سکتے ہیں۔ بطور مثال اگر مستحق فقیر کو تین کلو گندم بطور فطرہ دینی ہے تو اس کی قیمت بھی دے سکتے ہیں اور مستحق فقیر بھی اس سے جو خریدنا چاہے خرید سکتا ہے۔ لیکن کفارہ اس طرح نہیں ہے اور ضروری ہے کہ وہی کفارہ کی جنس مستحق فقیر کو دی جائے۔ حالانکہ فطرہ میں جنس بھی دے سکتے ہیں اور اس کے بدلے اس کی قیمت بھی دی جا سکتی ہے لیکن کفارے میں مستحق فقیر کو جنس دینا ہی لازمی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سی جنس ہو اور اس کی مقدار کتنی ہو؟
تمام عزیزان اور بالخصوص خیراتی اداروں کو اس مسئلہ کی جانب توجہ دینا چاہئے کہ جنس کفارہ، کفارہ دینے والے کی جانب سے مشخص ہونا چاہئے یعنی اگر وہ چاول دینا چاہتا ہے تو اسے چاول ہی دینے چاہئیں یا اگر کم قیمت کفارہ مثلا آٹا، گندم وغیرہ۔۔ دینا چاہتا ہے تو پھر بھی آٹا، گندم ہی مستحق فقیر کو دے۔
جب کفارہ کے لیے جنس کا انتخاب کرلیا تو اب اس کے وزن کے بارے میں اکثر فقہاء کے فتوی کے مطابق ۷۵۰ گرام ہونا چاہئے جبکہ بعض فقہاء 900گرام کے بھی قائل ہیں۔ پس اگر کوئی ایک ماہ کا کفارہ دینا چاہتا ہے تو ۷۵۰ گرام کے حساب سے اس کا وزن ساڑھے 22 کلو گرام بنے گا اور 900 گرام کے حساب سے ۲۷ کلو گرام بنے گا۔ پس یاد رہے کہ یہاں پر مستحق فقیر کو جنس کی قیمت نہیں دے سکتے بلکہ خود جنس ہی دینی پڑے گی۔اور اگر جنس مستقیماً مستحق فقیر تک نہیں پہنچا سکتے تو اس کے پیسے تنور کے مالک کے سپرد کر دیں کہ وہ ان پیسوں کی روٹی مستحق فقیر کو دے۔چونکہ اگر مستحق فقیر کو جنس کے بدلے پیسے دے دیں گے تو شاید وہ دوسری جنس خرید لے تو اس صورت میں کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ ہاں! مستحق فقیر کو صرف ایک صورت میں پیسے دئے جاسکتے ہیں کہ جب آپ مطمئن ہوں کہ وہ ان پیسوں سے ہماری مورد نظر جنس ہی خریدے گا یعنی اس کو پیسے دیتے وقت کہہ دیں کہ یہ پیسے مثلا روٹی خریدنے کے لئے ہیں اور ان پیسوں سے صرف روٹی ہی خریدنا ہے۔
خیراتی اداروں کی غلطی یہ ہے کہ وہ ایک شخص سے اس کے کفارہ کی مد میں پیسے لیتے ہیں مثلا وہ شخص کفارہ کے عنوان سے ایک لاکھ تومان دیتا ہے اور اس کی نظر میں یہ رقم 30 دنوں کے (گندم) کفارے کی ہے۔ اب خیراتی ادارہ کہتا ہے کہ مستحق فقیر کو آٹا اور گندم تو نہیں دے سکتا تو وہ ایک لاکھ تومان کے مثلا غیرملکی چاول خرید کر مستحق فقیر کو دے دیتا ہے۔ حالانکہ اس نے تیس کلو کے بجائے یہاں صرف دس کلو مستحق فقیر کو دیئے ہیں۔ اس کام کی وجہ سے کفارہ دینے والا بھی مشکل کا شکار ہو گیا ہے کیونکہ اس کا واجب ادا نہیں ہوا اور خیراتی ادارہ بھی (صحیح ادائیگی نہ کر کے)مشکل میں پھنس گیا۔
یاد رہے کہ کفارہ چاول، آٹا، گندم، روٹی اور کھجور وغیرہ ہونا چاہئے اور ان کی جگہ گوشت اور دالیں وغیرہ نہیں دی جاسکتیں کیونکہ یہ چیزیں کفارے کی اجناس میں نہیں آتیں۔