حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی جنرل سیکرٹری شیعہ علماء کونسل پاکستان علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی نے قائم بھروانہ جھنگ میں اہم پریس کانفرنس کے دوران کہا: قائد ملت جعفریہ علامہ سید ساجد علی نقوی جیسی معتبر شخصیت اور وحدتِ امت مسلمہ کے علمبردار کی جماعت پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔
شیعہ علماء کونسل پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری علامہ ڈاکٹر شبیر حسن میثمی صاحب نے مدرسہ شمس العلوم الجعفریہ قائم بھروانہ جھنگ میں علماء کرام و سیاسی رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ملکی حالات پر صحافیوں کے سوالات کے جوابات دئے۔
مرکزی جنرل سیکرٹری شیعہ علماء کونسل پاکستان نے کہا: آج کل بیرونی مداخلت کی باتیں زور و شور کے ساتھ کی جارہی ہیں اس لئے اس کی شفاف تحقیقات کرکے حقائق منظر عام پر لائے جائیں۔
انہوں نے کہا: ہماری قیادت نے ہمیشہ ملکی سالمیت کیلئے لازوال قربانیاں دیں جس کا ہر شخص معترف ہے۔ پاکستان میں ہم نے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے فرقہ واریت کے فتنہ کو دفن کیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ملت جعفریہ پاکستان کی نمائندہ جماعت تحریک جعفریہ پاکستان پر پابندی سراسر نا انصافی پر مبنی ہے اور قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی جیسی معتبر اور ملک کی بقاء کیلئے بے پناہ خدمات انجام دینے والی شخصیت کی سربراہی میں چلنے والی جماعت پر پابندی سمجھ سے بالاتر ہے۔ قومی اداروں کو اس حوالہ سے سوچنا چاہیے۔
علامہ شبیر میثمی نے کہا: کسی صورت میں بھی عزاداری اور عزاداروں پر پابندی قابل قبول نہیں ہے ۔عزاداری پر کاٹی گئی ایف آئی آرز کو فی الفور ختم کیا جائے۔
انہوں نے کہا: لاپتہ مؤمنین کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ اس کا راہ حل نکالا جائے اور لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنایا جائے۔
ڈاکٹر شبیر میثمی نے شیڈول فور کے معاملہ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: آئین پاکستان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ بلا وجہ کسی شریف اور قانون پسند شہری کو تنگ کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا: ہماری جماعت قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کی مدبرانہ قیادت میں ہر میدان میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے اور ان شاء اللہ ہر سطح پر ہم کردار ادا کرتے رہیں گے۔
مرکزی جنرل سیکرٹری شیعہ علماء کونسل پاکستان نے ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: یہ ملک بڑی کوششوں کے بعد حاصل کیا گیا۔ اس لئے اس کی بقاء سب سے پہلے ہے۔ سیاسی اختلافات میں اخلاقیات کے دامن کو تھامنا سب کی ذمہ داری ہے اور برداشت کے مادے کو مضبوط کریں تاکہ پر امن فضا مسموم نہ ہو۔