حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجھے بچپن سے ہی علمائے کرام اورتبلیغ دین میں بہت دلچسپی تھی، لیکن میرے والد کی خواہش تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں، ویسے تو 1362 ہجری شمسی (1983) میں میں نے تجرباتی علوم کے امتحان کو اچھے رینک سے پاس کیا، لیکن چونکہ مجھے حوزے میں بہت دلچسپی تھی اس لیے میں یونیورسٹی جا کر ڈاکٹر بننے کی کی سمت گیا ہی نہیں، اور چوں کہ میں نے حوزے کو سوچ سمجھ کر چنا تھا اس لئے میں اپنی تعلیم سے خوش ہوں۔
میں نے اپنے لیے طالب علمی کی زندگی کو آباد کر لیا، میرا دو دن ایک جیسا نہیں ہوتا کیونکہ میں ہر رات مطالعہ کرتا ہوں اور دن میں لیکچر دیتا ہوں، اور ویسے بھی ہر دن میرے لیے ایک نیا تجربہ لاتا ہے، اور تیسری چیز یہ میں اپنے آپ میں مفید ہونے کا احساس کرتا ہوں، کم از یہ تو کہہ سکتا ہوں کہ یہ طالب علمی والی زندگی میرے بچے کے لیے فائدہ مند اور کارآمد ثابت ہو سکتی ہے، میں آپ تمام طلاب کو بھی یہی بشارت دیتا ہوں کہ آپ اپنے بچوں کے لئے کم از کم مفید ثابت ہوں گے۔
طلباءعزیز ، آپ کو خلوص کے ساتھ حوزے میں داخل ہونا چاہئے، کیونکہ خالص خدا کے لئے حوزے میں آنا مہم ہے، جیسا کہ خدا سورہ انعام میں مسلمانوں سے فرماتا ہے: "قُلْ إِنَّ صَلاٰتِي وَ نُسُكِي وَ مَحْيٰايَ وَ مَمٰاتِي لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰالَمِينَ قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی لله رب العالمین"۔ میری ساری زندگی، موت، عبادت اور سب کچھ اگر خدا کے لیے ہے ہو تو ہی اس کی قیمت اور اہمیت ہے۔
خدا قرآن میں کہتا ہے، "وَقُلْ رَبِّ أَدْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَأَخْرِجْنِي مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِنْ لَدُنْكَ سُلْطَانًا نَصِيرًا"؛ یعنی انسان کا خاتمہ خیر پر ہو، انجام بہتر ہو تو سب اچھا ہے، وربہ بلعم باعورا، برصیصای عابد، زبیر و طلحه وغیرہ سب شروع میں اچھے تھے لیکن ان کا خاتمہ ایمان پر نہیں ہوا، اس وجہ سے ان کا انجام اچھا نہیں ہوا، اس لیے انسان کو ہمیشہ اللہ سے دعا کرنی چاہئے کہ خدا ہمیشہ اس کی پشت پناہی کریں۔
ایک فاسد عالم دنیا کو بگاڑ سکتا ہے اور ایک صالح عالم دنیا کو خدا کی طرف دعوت دے سکتا ہے، اس لیے شروع ہی سے تعلیم کو سنجیدگی سے لیں، عربی ادب پڑھیں اور اب سے ہی قرآن پر کام کریں، یہ بہت بری بات ہے کہ ایک طالب علم قرآن اچھی طرح نہ پڑھ سکے، یا کسی طالب علم سے کسی آیت کا ترجمہ کرنے کو کہا جائے اور وہ اسے ترجمہ نہ کر سکے، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ حوزے کے دروس کا آپ کے اخلاق پر منفی اثر نہ پڑے، بلکہ آپ طالب علم بننے سے پہلے کے مقابلے میں زیادہ شائستہ اور مہربان بن جائیں، آپ کے والدین اور شریک حیات کی آپ کے بارے میں رائے بدل جائے، ایسا نہ ہوکہ آپ کے اخلاق سے وہ صنف علما سے ہی متنفر ہو جائیں۔
آج کے دور میں سافٹ وئیر اور ہارڈ ویئر کی سہولتوں طالب علمی آسان ہو گئی ہے اور علم کے حصول میں سرعت آ گئی ہے، لیکن آپ کو ماضی کے علماء کی طرح محنت کرنی پڑے گی، اپنی صلاحیتوں کو ابھی سے بروئے کا لائیں، کیونکہ عالم دین ہونے کے بہت سے فوائد ہیں، آپ جس موضوع میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اسی موضوع پر کام کریں۔