۴ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۴ شوال ۱۴۴۵ | Apr 23, 2024
image-20221217055045-1.png

حوزہ / جامعۃ المصطفی کے سربراہ نے کہا: جامعۃ المصطفی جیسے باوقار اور بین الاقوامی تعلیمی مجموعہ کو بین الاقوامی سطح پر اپنے علمی اور تحقیقاتی کاموں کو پیش کرنے میں امتیازی مقام حاصل کرنا چاہیے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے مطابق ، جامعۃ المصطفی العالمیہ کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین عباسی نے جامعۃ المصطفی کے تحقیقی ہفتہ کے پروگرامز کی افتتاحی تقریب میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے موقع پر تعزیت پیش کرتے ہوئے جامعۃ المصطفی کے تحقیقی ہفتہ کے پروگرامز کے منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کی اور کہا: جامعۃ المصطفٰی جیسے علمی، تحقیقی اداروں میں تحقیقاتی امور کم از کم دو فارمیٹس میں انجام دئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے "تعلیم کے دوران تحقیق" ہے۔

جامعۃ المصطفی کے سرپرست نے مزید کہا: جامعۃ المصطفی کے موجودہ تعلیمی نظام میں تعلیمی سسٹم کا ایک اہم حصہ تحقیق کے لیے مدنظر رکھا گیا ہے اور اس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جبکہ تقریباً دو دہائیاں پہلے مقالہ نگاری، تھیسز اور تحقیقی کام کی کوئی خبر نہیں تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ المصطفی کے تعلیمی نظام میں یہ مسائل اوج پکڑتے گئے البتہ ابھی بھی ہمیں مطلوبہ ہدف اور مقام تک پہنچنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔

انہوں نے علمی اور تحقیقی سرگرمیوں میں تکراری یا غیر اہم کاموں کی انجام دہی کو تحقیق کے نقصانات میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا: آج معروف علمی مراکز معاشروں کی تحقیقی ضروریات کا ایک بڑا حصہ اپنے تعلیمی نظام میں تحقیق کی صورت میں پورا کرتے ہیں۔ اس تناظر میں ہمارے مقالوں اور علمی تھیسز کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لیے علمی مراکز کے عہدیداروں اور ریسرچ یونٹس کے مسئولین، محترم اساتید اور طلباء کی طرف سے مزید منصوبہ بندی اور سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی تحقیق کو موجودہ مسائل کے حل کی طرف لے کر جائیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین عباسی نے مستقل اور جدید مطالب پر مشتمل تحقیق کو المصطفی کے تحقیقاتی امور کا دوسرا حصہ قرار دیا اور کہا: اس قسم کی تحقیق کی تیاری میں اساتید اور طلباء دونوں حصہ لیتے ہیں۔ کتابوں کی تصنیف و ترجمہ اور علمی مضامین کی تدوین جو کہ حوزہ علمیہ میں تشریحی روایت کی ایک نئی شکل ہے، کو آج نئے طریقوں اور سسٹم کے ساتھ ہمارے علمی مراکز کے تعلیمی ایجنڈے میں شامل ہونا چاہئے۔ لہذا ہمیں اس شعبے میں بھی بہت سنجیدگی سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے قومیت اور ثقافت کے تنوع کی وجہ سے جامعۃ المصطفی کو دستیاب مواقع میں سے ایک زبان کی صلاحیت اور علمی تراجم کو قرار دیتے ہوئے کہا: ترجمہ؛ علمی آثار اور نتائج کو منتقل کرنے اور انہیں مقامی بنانے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔ اسلامی تہذیب کی تاریخ میں بھی مسلمانوں نے ایک خاص دور میں ترجمے کے مسئلے پر خصوصی توجہ دی۔ ان ادوار کے دوران "بیت الحکمۃ" جیسے مراکز دوسری قوموں اور لوگوں کے علم و دانش کو دوبارہ احیاء کرنے اور انہیں مقامی بنانے کے پلیٹ فارمز میں تبدیل ہو گئے۔ مقام معظم رہبری مدظلہ العالی نے بھی کئی بار کہا ہے کہ "ہمیں دوسروں کے نتائج سے سیکھنے اور ان کا شاگرد بننے میں کوئی جھجک نہیں ہے"۔

جامعۃ المصطفی کے سرپرست نے مزید کہا: زبان کی ترسیل کے لیے المصطفی کی منفرد صلاحیت کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ موردِ توجہ قرار دینا چاہیے۔ ہم ابھی تک المصطفی کے محققین کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود تراجم کا مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ البتہ عربی زبان میں اہم تصانیف کے تراجم کے کامیاب نمونے مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں جسے دوسری زبانوں میں بھی اجراء کیا جانا چاہیے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین عباسی نے کہا: جامعۃ المصطفی جیسے باوقار اور بین الاقوامی تعلیمی ادارے کو بین الاقوامی سطح پر اپنے علمی اور تحقیقاتی کاموں کو پیش کرنے میں امتیازی مقام حاصل کرنا چاہیے۔ یہ نمائش، جو آج ہمارے ساتھیوں کی کاوشوں سے ڈیزائن کی گئی ہے، اس کا ہدف یہ ہے کہ ہم اس نمائش کے آئینے میں اپنی کامیابیوں اور امتیازات کا جائزہ لے سکیں۔

واضح رہے کہ حجۃ الاسلام و المسلمین عباسی نے اس تقریب میں جامعۃ المصطفی کے شعبہ جات کی تحقیقی کاوشوں کی نمائش کا افتتاح بھی کیا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین ناصر رفیعی کی تحریر کردہ کتاب " فاطمہ، رازماندگاری امامت" (فاطمہ، امامت کی بقاء کا راز) کی نقاب کشائی اور نمائشی اسٹالز کا دورہ بھی اس تقریب میں سرپرستِ جامعۃ المصطفی کے دیگر پروگرامز میں شامل تھا۔

ترجمہ؛ علمی آثار کو منتقل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .