۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
رہبر انقلاب اسلامی

حوزہ/ رہبر انقلاب اسلامی نے بدھ کی صبح پورے ملک سے آئے ہوئے ہزاروں بسیجیوں (رضاکار فورس کے اراکین) سے ملاقات میں اس فورس کو امام خمینی کی گرانقدر یادگار بتایا اور بسیجی ہونے پر ان کے افتخار کو، بسیج کے ممتاز درجے کا غماز بتایا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے کسی سرحد اور قوم تک محدود نہ رہنے کے پہلو کو بسیج کی ایک نمایاں خصوصیت قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی مزاحمت کی اکائیوں کی تشکیل کے بارے میں امام خمینی رحمت اللہ علیہ نے جو بشارت دی تھی وہ آج خطے میں عملی جامہ پہن چکی ہے اور استقامت کی اکائياں خطے کا مستقبل بدل رہی ہیں، جس کی ایک مثال طوفان الاقصیٰ آپریشن ہے۔

انھوں نے مغربی ایشیا کے جیو پولیٹکل نقشے کو بدلنے کی امریکیوں کی شکست خوردہ سازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکیوں نے کئی سال پہلے لبنان کے مسئلے میں کہا تھا کہ وہ اپنی ضرورتوں اور ناجائز مفادات کی بنیاد پر نئے مشرق وسطیٰ کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں لیکن وہ اس میں ناکام رہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے خطے کا نیا نقشہ بنانے میں امریکا کی شکست کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ امریکا حزب اللہ کو ختم کرنا چاہتا تھا لیکن 33 روزہ جنگ کے بعد حزب اللہ پہلے سے دس گنا زیادہ طاقتور ہو گئی۔

انھوں نے مغربی ایشیا کی جیو پولیٹکل صورتحال میں تدریجی طور پر استقامتی محاذ کا پلڑا بھاری ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نقشے کی پہلی خصوصیت، امریکا کو دور بھگانا یعنی خطے پر امریکی تسلط کا خاتمہ ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی سیاسی طاقت اور اس کا تسلط ختم ہوتا جا رہا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ خطے پر تسلط کے لیے امریکا کے اقدامات میں سے ایک، صیہونی حکومت کو مضبوط بنانا اور ملکوں کو اس سے تعلقات قائم کرنے کے لیے ترغیب دلانا تھا جبکہ خطے سے امریکا کو دور کرنے کی واضح علامتوں میں سے ایک، طوفان الاقصیٰ آپریشن کا تاریخ رقم کرنے والا زبردست واقعہ ہے جو اگرچہ صیہونی حکومت کے خلاف تھا لیکن امریکا کو خطے سے دور کرنے کی سمت میں تھا۔

انھوں نے اسی سلسلے میں کہا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن نے اس علاقے سے متعلق امریکی پروگراموں کے شیڈول کو درہم برہم کر دیا اور اگر یہ جاری رہا تو خطے سے امریکی پروگراموں کا یہ پورا شیڈول سرے سے مٹ جائے گا۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ نئے مشرق وسطی کی دوسری خصوصیت خطے میں جعلی اور مسلط کردہ جدائی ڈالنے والے پروپیگنڈوں کا خاتمہ ہے اور اب عرب اور غیر عرب، شیعہ اور سنی یا ہلال شیعی کے افسانے جیسے پروپیگنڈے اپنا رنگ کھو چکے ہیں جس کی واضح مثال، فلسطین کا مسئلہ ہے کیونکہ طوفان الاقصیٰ کے دوران اور اس سے پہلے فلسطینیوں کی سب سے زیادہ مدد عرب اور غیر عرب شیعوں نے کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس طرح کے مسلط کردہ پروپیگنڈوں کے مقابلے میں، استقامت اور گھٹنے ٹیکنے جیسی دو نئی حقیقتیں علاقے میں سامنے آ گئی ہیں۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ پوری سرزمین فلسطین پر فلسطینیوں کی حاکمیت پر تاکید کرتے ہوئے مسئلۂ فلسطین کا حل، نئے مغربی ایشیا کی ایک دوسری حقیقت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فلسطین کے مستقبل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی تجویز یعنی فلسطین کے اندر اور باہر رہنے والے تمام فلسطینیوں کی شرکت سے ریفرنڈم کے انعقاد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صیہونی حکومت اس تجویز کو نہیں مانے گی لیکن اس پر یہ عزم مسلط کرنا ہی ہوگا اور اگر اس تجویز پر ٹھوس طریقے سے کام کیا جائے، جو کہ ان شاء اللہ کیا جائے گا اور اگر استقامت کی اکائياں، پوری سنجیدگی سے اپنے عزم و ارادے پر عمل کریں تو یہ ہدف پورا ہو جائے گا۔

انھوں نے اہداف سے قریب ہونے میں طوفان الاقصیٰ کے واقعے کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی اس طوفان سے سخت طیش میں ہیں اور اسے روکنے کے لیے اسپتالوں، اسکولوں اور لوگوں کی بھیڑ پر حملے کر رہے ہیں۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی کی وجہ سے جاری صیہونیوں کے سفاکانہ جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جرائم، صیہونی حکومت، امریکا اور مغربی تمدن کی مزید بے عزتی کا سبب بنے ہیں اور مغرب کا کلچر اور تمدن یہ ہے کہ وہ پانچ ہزار فلسطینی بچوں کو شہید کرنے اور فاسفورس بموں کے استعمال کو سیلف ڈیفنس کا نام دیتا ہے۔

انھوں نے غزہ میں 50 دن سے جاری جرائم کو، فلسطین میں 75 برس سے پر پھیلے صیہونیوں کے جرائم کا خلاصہ بتایا اور کہا کہ طوفان الاقصیٰ رکنے والا نہیں ہے اور ان شاء اللہ یہ صورتحال بھی جاری نہیں رہے گی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں امام خمینی کی جانب سے ملک کو ایک عظیم عوامی فورس کی ضرورت کو محسوس کیے جانے اور رہبر کبیر کی دوراندیشی کو بسیج کی تشکیل کا سبب بتایا۔

انھوں نے امام خمینی کی جانب سے رضاکار فورس کے لیے "مدرسۂ عشق" کا لفظ استعمال کیے جانے کو اس حقیقت کی علامت بتایا کہ بسیج فورس اللہ، روحانیت اور عوام سے عشق کے ساتھ حق کی راہ پر قدم بڑھا رہی ہے۔

آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں رضاکار فورس کے افراد کو کچھ نصیحتیں کیں۔ بصیرت میں اضافہ، جدت طرازی، دشمن کے منصوبوں میں مددگار بننے سے پرہیز، شدیدترین پابندیوں اور دباؤ میں ملک کی حقیقی ترقی و پیشرفت پر بھروسہ کرتے ہوئے مستقبل کی طرف سے لگاتار امید، غرور و نخوت سے دوری، بسیجی ہونے کی قدرشناسی اور اسے اللہ کی گرانقدر امانت سمجھنا، پروردگار عالم پر ہمیشہ توکل، آپریشنل فورسز کے ساتھ پلاننگ والی فورسز کی بھرتی اور تدبیر، پلاننگ اور پروگرام تیار کیے جانے کو زیادہ اہمیت دینا وہ نصیحتیں تھیں جو رہبر انقلاب اسلامی نے بسیج اور بسیجیوں سے کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .