ترجمہ و ترتیب: محترمہ سیدہ نصرت نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی| مغربی ایشیا اس وقت بارود کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔ صورتحال انتہائی حساس اور پیچیدہ ہے اور کسی بھی لمحے غیر متوقع واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ شیطانی امریکی فوج اور اس کے اتحادیوں نے یمن کے معاملے کو "حل" کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بلاشبہ، وہ یمن کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں، لیکن وہ غلطی پر ہیں اگر یہ سمجھتے ہیں کہ یمنی مجاہدین کو اتنی آسانی سے زیر کر لیں گے!
امریکیوں کا نظریہ یہ ہے کہ جب تک مزاحمت کے تمام بازوؤں کو کاٹ نہیں دیا جاتا، ایران کو شکست دینا ممکن نہیں۔ اسی وجہ سے یمن پر دباؤ مزید بڑھ سکتا ہے۔ تاہم، یمن امریکی سانپ کے لیے آسان نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔
لبنان کے معاملے میں، تکفیری دہشت گرد کئی دنوں سے مسلسل ہرمل کے سرحدی علاقوں پر حملے کر رہے ہیں۔ اس کا واضح مقصد حزب اللہ کے ساتھ تصادم پیدا کرنا اور مزاحمت کے خلاف ایک نیا محاذ کھولنا ہے تاکہ اس بہانے اقوام متحدہ کی "امن فوج" کو اسرائیل کے ساتھ لبنان کی سرحد پر تعینات کیا جا سکے۔ اسرائیلی اب بھی لبنان اور شام میں مزاحمت کے درمیان رابطے سے خوفزدہ ہیں۔
غزہ کا معاملہ اب بھی اسرائیلیوں کے لیے ایک نہ ختم ہونے والا عذاب بنا ہوا ہے۔ اگر وہ جنگ بندی کے عمل کو جاری رکھتے ہیں تو انہیں شکست تسلیم کرنی پڑے گی، اور مزاحمت ان کے لیے مسلسل دردِ سر بنی رہے گی۔ اگر وہ دوبارہ جنگ چھیڑتے ہیں تو انہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑے گا، ان کے فوجی مارے جائیں گے، اور اندرونی و عالمی دباؤ میں مزید اضافہ ہوگا۔
ایران کی جوہری سرگرمیاں مسلسل عروج پر جا رہی ہیں، اور مغرب کو اس نام نہاد "بریک آؤٹ پوائنٹ" تک پہنچنے کی فکر لاحق ہے۔ وہ مغربی ایشیا کے تمام محاذوں کو کسی نہ کسی طریقے سے "حل" کرنا چاہتے ہیں، مگر یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا وہ سمجھتے ہیں۔
مزاحمتی بلاک کو پہنچنے والے نقصانات اور وائٹ ہاؤس میں بیٹھے موطلائی (سنہرے بالوں والے) شخص کی گیدڑ بھبکیوں کے باوجود، دشمن اچھی طرح جانتا ہے کہ مزاحمت کے محاذ کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
اگر اس بار ایران پر کوئی بھی حملہ کیا گیا تو یہ ایک ایسی آگ میں تبدیل ہوگا جو بہت سوں کا وجود جلا کر خاکستر کر دے گی، اور دشمن اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے۔
چنانچہ ان کی نظریں اس پر ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ایران کے اندرونی محاذ کو کمزور کیا جائے تاکہ براہِ راست مزاحمت کا سامنا کرنے سے بچا جا سکے۔
ایشیا اس وقت شدید جغرافیائی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے دور سے گزر رہا ہے۔ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی، بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں عدم استحکام، مشرق وسطیٰ میں جاری جنگی صورتحال اور افغانستان میں غیر یقینی حالات خطے میں خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے کی شدت اور ایران کے خلاف مغربی دباؤ بھی خطے کی سلامتی کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔ اگر ایشیائی ممالک نے دانشمندانہ فیصلے نہ کیے تو یہ صورتحال بڑے بحران میں تبدیل ہوسکتی ہے۔
ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے، خاص طور پر انقلابی جوانوں کو انتہائی ہوشیار رہنا ہوگا۔ اندرونی سطح پر کسی بھی قسم کی کشیدگی، اپنوں کے خلاف محاذ آرائی اور غیر ضروری مسائل میں الجھنا دشمن کے مفاد میں ہوگا۔ ہمیں ہر حال میں بیدار رہنا ہے اور رہبر معظم کی رہنمائی پر توجہ مرکوز رکھنی ہے—نہ سستی کرنی ہے اور نہ ہی جذباتی ہو کر آگے بڑھنا ہے۔
یہ ایک فیصلہ کن وقت ہے دشمن کے بلند و بانگ دعووں اور شیطانی اتحاد کی دھمکیوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے، حق ہمارے ساتھ ہے، اور ان شاء اللہ الٰہی نصرت بھی ہمارے ساتھ ہوگی۔
یقین رکھیں! اس تمام ہنگامہ آرائی کے باوجود، بالآخر فتح حق کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔
آپ کا تبصرہ