پیر 5 مئی 2025 - 09:35
حوزہ علمیہ قم؛ مزاحمت کا مورچہ اور جدید اسلامی تہذیب کا علمبردار / مرحوم آیت اللہ حائری نے علمی و انقلابی تحریک کی بنیاد رکھی

حوزہ/ حجۃ الاسلام والمسلمین سعید صلح میرزائی نے حوزہ نیوز سے گفتگو میں کہا کہ صنف روحانیت، معاصر تاریخ کی عظیم تبدیلیوں میں ہمیشہ پیش قدم رہی ہے، اور اب بھی اسے چاہیے کہ علمی و تبلیغی جہاد کے ذریعے ظہور امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی زمینہ سازی کرے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین سعید صلح میرزائی نے حوزہ نیوز سے گفتگو میں کہا کہ صنف روحانیت، معاصر تاریخ کی عظیم تبدیلیوں میں ہمیشہ پیش قدم رہی ہے، اور اب بھی اسے چاہیے کہ علمی و تبلیغی جہاد کے ذریعے ظہور امام عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی زمینہ سازی کرے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین صلح میرزائی نے حوزہ ہائے علمیہ بالخصوص حوزہ علمیہ قم کی تاریخی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: حوزہ علمیہ امتِ اسلامی کے ایمان کی حفاظت کے لیے ایک الٰہی نعمت ہے۔ یہ مقدس ادارہ استبدادِ رضاشاہی کے سیاہ دور میں، سخت ترین دباؤ اور مؤمنین پر ہونے والے ظلم و ستم کے باوجود، فقیہ عالی‌مقام آیت اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھوں احیاء ہوا۔ اس وقت، رضاخان ملعون استعمار کے ایجنٹ کے طور پر حجاب، روحانیت اور اسلامی شعائر کے خلاف محاذ آرائی پر کمربستہ تھا۔

انہوں نے مزید کہا: حوزہ قم ابتدا ہی سے طاغوت کے خلاف مزاحمت کا مرکز بن گیا تھا، اور بعد ازاں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں اسلامی انقلاب کی کامیابی میں اس نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 15 خرداد 1342 کا قیام، اور فیضیہ مدرسہ میں طلاب کی شہادتیں، سب اس سلسلۂ انقلاب کی کڑیاں تھیں، جن میں علماء کی موجودگی کے بغیر انقلاب کا کامیاب ہونا ممکن نہ تھا۔

اس استاد حوزہ علمیہ نے اسلامی اقدار کے دفاع میں علماء و طلاب کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: دفاع مقدس میں شہید ہونے والے علما کی تعداد نسبتاً دیگر طبقات سے کہیں زیادہ تھی۔ یہ کردار صرف جنگ تک محدود نہیں رہا، بلکہ جہادِ سازندگی، مدافعانِ حرم اور حتیٰ کہ کرونا کے دور میں بھی طلاب، علاج و خدمت کے محاذ پر موجود رہے اور اسپتالوں میں میڈیکل اسٹاف کے شانہ بہ شانہ خدمات انجام دیتے رہے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین صلح میرزائی نے حوزہ اور اسلامی نظام کے درمیان تعامل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا: اسلامی نظام نے جب اپنے جدید مسائل حوزہ کے سامنے رکھے تو اس سے طلاب کی علمی نشوونما ممکن ہوئی، اور حوزہ نے بدلے میں قضا، قانون سازی اور ثقافت جیسے میدانوں کے لیے دیندار اور ماہر افراد تیار کیے۔ یہی وہ "علمِ نافع" ہے جس پر شہید سید محمدباقر صدر رحمۃ اللہ علیہ نے بارہا تاکید فرمائی۔

مجلس خبرگان رہبری کے اس رکن نے حوزہ علمیہ کے آئندہ مشن کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا: حوزہ کو تین اہم میدانوں میں پیش قدم ہونا چاہیے: (1) دینی تبلیغ، شکوک و شبہات کا ازالہ اور بامحتوا دینی مواد کی تیاری؛ (2) فقہی تحقیقات، اسلامی حکمرانی اور معیشت کے مسائل؛ (3) عدل کے قیام کے لیے حکمرانی پر فکری دباؤ اور مطالبہ۔

انہوں نے مزید کہا: رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ حوزہ کو علمی مجاہدت اور تبلیغ دین کے ساتھ میدان میں اترنا چاہیے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین صلح میرزائی نے گفتگو کے اختتام پر حوزہ علمیہ کے حتمی ہدف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: "اسلامی تمدن" صرف فعال اور متحرک حوزوں کے ذریعے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ علماء ہمیشہ بڑے تاریخی تغیرات کی صفِ اوّل میں رہے ہیں، اور آج بھی انہیں چاہیے کہ ظہور امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی راہ ہموار کریں۔ یہ راستہ حوزہ کے ذمہ داران کی شب و روز کوششوں اور طلاب کی بلند ہمتی سے جاری قائم ہوگا۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha