حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مجلس علمائے جنوبی ہند" کے سربراہ حجۃ الاسلام و المسلمین سید تقی رضا عابدی ( تقی آغا) اپنے اسلامی جمہوریہ ایران کے سفر کے دوران حوزہ نیوز ایجنسی کے قم المقدسہ میں مرکزی دفتر کا وزیٹ کیا اور حوزہ نیوز ایجنسی نے ایک خصوصی گفتگو کی۔ اس گفتگو میں حیدرآباد دکن میں مولانا موصوف کی تبلیغی فعالیت سمیت انکے اغراض و مقاصد، موجودہ خدمات، چیلنجز اور مستقبل کے منصوبوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذیل میں اس گفتگو کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے:
حوزہ: آپ مجلس علمائے جنوبی ہند کے سربراہ ہیں، اور دیگر دینی و سماجی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں، آپ کے اہم مقاصد اور اب تک کی خدمات کیا رہی ہیں؟
مولانا تقی آغا عابدی: ہمارا کام زیادہ تر انفرادی سطح پر ہوتا ہے۔ ہم اپنے ذاتی جذبے اور دینی غیرت کے تحت کام کرتے ہیں۔ مثلاً، اعتکاف کی ترویج، دعاؤں کے جلسات اور جوانوں کی تربیت پر کام وغیرہ۔
حوزہ: آپ نے حیدرآباد دکن کے مخصوص حالات کا ذکر کیا، آپ کا مشاہدہ کیا ہے؟
مولانا تقی آغا عابدی: حیدرآباد دکن ایک حساس علاقہ ہے، جہاں شیعہ اقلیت میں ہونے کے باوجود تعلیمی، سماجی اور اسٹیٹ سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں ہیں۔ افسوس کہ انقلاب اسلامی کے اثرات یہاں اتنے نہیں پہنچ سکے جتنے پہنچنے چاہیے تھے۔ تشیع کی اصلی فکر، یعنی توحید، امامت، ولایت اور دعاؤں کی روحانی فضا، یہاں ماضی میں کمزور رہی۔
حوزہ: آپ کا ماننا ہے کہ انقلاب اسلامی کے بعد جو تبدیلیاں آئیں، ان سے حیدرآباد دکن کے مومنین کیوں محروم رہے؟
مولانا تقی آغا عابدی: یہی ایک پورا مقالہ کا موضوع ہے۔ عوام تو آمادہ تھے، لیکن کچھ علماء اور نمائندے اپنی ذمہ داری کو ادا نہیں کر سکے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے نظریات رائج ہوئے جنہوں نے اصل توحیدی فکر کو نقصان پہنچایا۔ آج بھی اگر علماء صحیح حکمت عملی اپنائیں تو اصلاح ممکن ہے۔
حوزہ: آپ نے دعاؤں، اعتکاف اور روحانی مجالس کا ذکر کیا، اس کا پس منظر کیا ہے؟
مولانا تقی آغا عابدی: ہم نے برسوں پہلے حیدرآباد دکن میں اعتکاف کی روایت کو زندہ کیا۔ دعائے کمیل، دعائے توسل اور دیگر دعائیں جنہیں نظرانداز کیا جا رہا تھا، انہیں پھر سے روشناس کرایا۔ ہمارا مقصد ہے کہ عوام کو لکڑہارے کی پرانی داستانوں سے نکال کر اہل بیت علیہم السلام کی حقیقی تعلیمات کی طرف لایا جائے۔

حوزہ: نوجوان نسل کو دین سے جوڑنے کے لیے آپ کی حکمت عملی کیا ہے؟
مولانا تقی آغا عابدی: اصل دین، یعنی توحید، امامت، اخلاق اور احکام شریعت کی تعلیم نوجوانوں تک پہنچانا ہی اصل حکمت عملی ہے۔ جب ایمان مضبوط ہوگا تو اخلاق و احکام خودبخود اثر کریں گے۔ ہمیں ہر شہر میں نوجوانوں کے لیے اعتقادی ورکشاپس، نشستیں اور مطالعہ کا ماحول بنانا ہوگا۔
سوال: ہندوستان ایک کثیر المذہب اور کثیر المسلک ملک ہے، وحدت اسلامی کے حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
مولانا تقی آغا عابدی: اتحاد وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ہمیں اختلافات کے بجائے مشترکات پر زور دینا ہوگا۔ وحدت اسلامی تبھی ممکن ہے جب ہم اصولِ دین کو بنیاد بنائیں اور اخلاقی اقدار کو معاشرے میں فروغ دیں۔
حوزہ: آپ کے نزدیک ایک عالم دین کی سب سے بڑی ذمہ داری کیا ہونی چاہئے؟
مولانا تقی آغا عابدی: ایک حقیقی عالم دین کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خالص دینِ محمدی (ص) سے آشنا کرے۔ انہیں معرفتِ توحید، ولایتِ اہل بیت (ع) اور اخلاص و اخلاق کی بنیادوں پر استوار زندگی کی طرف رہنمائی دے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ خود بھی علم، عمل اور اخلاص میں نمایاں ہو، تاکہ اس کی باتوں میں اثر ہو اور وہ لوگوں کا اعتماد حاصل کر سکے۔

حوزہ: موجودہ دور میں ہندوستانی طلباء کے لیے حوزہ علمیہ کی اہمیت کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
مولانا تقی آغا عابدی: آج جب دنیا بھر میں فکری و ثقافتی یلغار جاری ہے، ایسے میں حوزہ علمیہ ایک قلعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوستانی طلباء کے لیے ضروری ہے کہ وہ حوزہ سے وابستہ ہو کر فقط فقہ و اصول ہی نہیں بلکہ عقائد، کلام، اخلاق، تفسیر، تاریخ اور معاصر مسائل میں مہارت حاصل کریں، تاکہ وہ قوم و ملت کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔ حوزہ علمیہ صرف درسگاہ نہیں، بلکہ ایک فکری و روحانی تربیت گاہ ہے، جہاں سے انقلابی مصلحین اور رہبر تیار ہوتے ہیں۔









آپ کا تبصرہ