حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے شہر کراچی میں نہج البلاغہ کے پیغام کو عام کرنے اور معاشرے میں فکری و اخلاقی بیداری پیدا کرنے کی غرض سے مرکز افکار اسلامی کی جانب سے اور ابوطالب(ع) ٹرسٹ کراچی کے زیر اہتمام مسجد و امام بارگاہ ابوطالب (ع)، پیامبر اعظم آڈیٹوریم، DHA کراچی میں ایک پُرشکوہ "نہج البلاغہ کانفرنس" منعقد ہوئی۔ جس میں کثیر تعداد میں علماءکرام، دانشوران اور محبین اہلِ بیت علیہم السلام نے شرکت کی۔
اس کانفرنس سے سرپرست مرکز افکار اسلامی حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی، آیت اللہ سید عقیل الغروی (آنلائن خطاب)، حجت الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی، پروفیسر عابد حسین، ڈاکٹر اعجاز حسین، حجت الاسلام والمسلمین سید شہنشاہ حسین نقوی نے خطابات کئے۔
پاکستان میں مرکز افکار اسلامی کے مدیر حجت الاسلام والمسلمین لیاقت علی اعوان نے کانفرنس کی نظامت کے فرائض انجام دئے اور اپنی گفتگو کے آغاز میں شرکاء کو خوش آمدید کے بعد مرکز افکار اسلامی کی فعالیت اور مختلف علمی و دینی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی۔

کانفرنس کے پہلے مقرر شاعر اہلبیت (ع) جناب قمر حیدر قمر نے اپن گفتگو کے دوران نہج البلاغہ پر ایک نظم اور بی بی شہزادیٔ کونین (س) کی شان میں درج ذیل قطعہ پیش کیا:
فقط ایک لفظ میں، سارا قصیدہ لکھ دیا میں نے
محمد کی ثنا پوچھی تو زہرا (س) لکھ دیا میں نے
کسی نے پھر کہا مجھ سے کہ اب زہرا(س) کی مدحت لکھ!
قمر، بے ساختہ "امِ ابیھا" لکھ دیا میں نے
حجت الاسلام والمسلمین سید علی مرتضی زیدی نے اپنے خطاب کے دوران منتظمینِ کانفرنس کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے"مکتوب نمبر 69" کو بیان کیا اور کہا: یہ مکتوب امیرالمؤمنین علیہ السلام نے حارث ہمدانی کو لکھا۔

انہوں نے کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام نے حارث ہمدانی کو خصوصی طور پر حکم دے رکھا تھا کہ "ہمیشہ قلم اور کاغذ اپنے پاس رکھا کرو اور جو میں علم دیا کروں اس کو تم تحریر کیا کرو"۔
اہلسنت کے معروف عالم دین مفتی فضل ہمدرد نے اپنے خطاب میں "عظمتِ نہج البلاغہ" پر اپنے خطاب میں کہا: نہج البلاغہ "کتابِ وحدت" ہے۔ یہ امتِ مسلمہ کو متحد کرنے والی کتاب ہے۔
انہوں نے نہج البلاغہ پر اہلسنت علماء کی کاوشوں اور شروحات کو بیان کرتے ہوئے کہا: اہلسنت والجماعت نے نہج البلاغہ کے ساتھ ہمیشہ اہتمام کیا ہے۔ جید علماء اہلسنت و اکابرین منجملہ ابوالحسین بیہقی، فخرالدین رازی، مفتی محمد عبدہ وغیرہ نے نہج البلاغہ کی شروحات لکھی ہیں۔

آیت اللہ سید عقیل الغروی نے اپنے آنلائن خطاب میں کانفرنس کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا: کلماتِ امیرالمومنین و خطبات امیرالمومنین (ع) اپنی علیحدہ شان رکھتے ہیں۔
انہوں نے مرکز افکار اسلامی کے سرپرست کی جانب سے نہج البلاغہ کے موضوع پر حالیہ شعراء کے کلام کومنتشر کرنے کو انتہائی احسن اقدام قرار دیتے ہوئے تقاضا کیا کہ اس جیسے امور کو مزید بہتر انداز سے عاشقانِ نہج البلاغہ کے سامنے لایا جائے۔

سرپرست مرکز افکار حجت الاسلام والمسلمین مقبول حسین علوی نے کانفرنس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں خطبہ نمبر 180 کو بیان کرتے ہوئے کہا: نوف بکالی کہتے ہیں کہ حضرتؑ نے یہ خطبہ ہمارے سامنے کوفہ میں اس پتھر پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا جسے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی نے نصب کیا تھا۔ اس وقت آپؑ کے جسم مبارک پر ایک اونی جُبہّ تھا اور آپؑ کی تلوار کا پرتلہ لیف خرما کا تھا اور پیروں میں جوتے بھی کھجور کی پتیوں کے تھے اور (سجدوں کی وجہ سے) پیشانی یوں معلوم ہوتی تھی جیسے اونٹ کے گھٹنے پر کا گھٹا۔ ضَرَبَ بِیَدِهٖۤ عَلٰی لِحْیَتِهِ۔۔۔ فَاَطَالَ الْبُكَآءَ۔ علی نے اپنا دستِ مبارک ریش مبارک پر رکھا اورامام علیہ السلام بڑی دیر تک روتے رہے۔
انہوں نے مزید کہا: امام مظلوم (ع) کی طرح یہ کلام بھی مظلوم ہے۔ اور ہمارا یہ مشن ہے کہ ہم سب مل کر نہج البلاغہ کو دنیا کے کونے کونے اور صدارت کے محلات تک پہنچائیں اور جوانوں کے دلوں میں علی علیہ السلام کے کلام کو جاگزیں کریں تاکہ ہمارا علی (ع) خوش ہو۔

پاکستان کے معروف خطیب پروفیسر عابد حسین نے اپنی گفتگو کے دوران کہا: امیرالمؤمنین (ع) کا یہ کلام جیسا کہ خود امام معصوم (ع) نے فر،ایا ہے "ہر اس شخص کے لئے ہے جس تک میرا یہ کلام پہنچے"۔
انہوں نے کہا: اس کلام کی عظمت کو بیان کریں تو امیرالمؤمنین علیہ السلام کا عبداللہ ابن عباس کو تفسیرِ قرآن پڑھاتے ہوئے فرمان مشاہدہ کریں جس میں آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا " لَوْ شِئْتُ لَأَوْقَرْتُ سَبْعِينَ بَعِيراً فِي تَفْسِيرِ فَاتِحَةِ اَلْكِتَابِ یعنی اگر میں علی لکھنے والا ہوں اور پورا قرآن نہیں صرف سورۂ فاتحہ کی تفسیر لکھوں تو ستر اونٹ بھی اس کا بوجھ نہ اٹھا سکیں۔

یو-کے سے تشریف لائے ڈاکٹر اعجاز حسین نے کہا: امیرالمؤمنین علیہ الصلوۃ والسلام نے "عدل" کو صرف "Justice" مراد نہیں لیا جیسا کہ جورج جرداق، گبن اور پی ہیکی وغیرہ نے کہا ہے کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام کے فرامین میں عدل سے مراد "Transparent delivery of justice" ہے یعنی عدل صرف عدالت نہیں بلکہ عدالت کو عملی طور پیش کرنے اور اس کا مشاہدہ ہونے کا نام ہے۔

کانفرنس سے اختتامی خطاب میں پاکستان کے معروف خطیب حجت الاسلام والمسلمین سید شہنشاہ حسین نقوی نے کانفرنس کے منتظمین اور شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا: مولا علی (ع) ہر میدان میں "علی" ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: امیرالمؤمنین علیہ السلام کا سب سے پسندیدہ میدان جس میں وہ قدم رکھتے ہیں اور کامیاب بھی لوٹتے ہیں وہ "میدانِ علم" ہے۔ لہذا سلونی سلونی کا ترجمہ صرف یہ نہیں کہ "پوچھو پوچھو، اس سے پہلے کہ میں دنیا سے چلا جاؤں" نہیں بلکہ ایک درست ترجمہ ہے جو کیا جانا چاہئے کہ "پوچھو پوچھو، اس سے پہلے کہ تم مر جاؤ"۔

حجت الاسلام والمسلمین علامہ ڈاکٹر داودانی نے دعائیہ کلمات سے اس پروگرام کا اختتام کیا۔

قابل ذکر ہے کہ کانفرنس میں پاکستان میں جامعۃ المصطفی کے نمائندہ محترم حجت الاسلام والمسلمین حاج آقای سید شمسی پور نے بھی خصوصی شرکت کی اور برصغیر کے شعراء کے کلام کے مجموعہ پر مشتمل کتاب کی رونمائی بھی کی گئی اور یہ کتاب سرپرست مرکز افکار کی جانب سے مفتی فضل ہمدرد کو پیش کی گئی اور ابوطالب ٹرسٹ کی جانب سے ٹرسٹ کے چیئرمین سید اقبال شاہ کانفرنس نے معزز مہمانان گرامی کو اعزازی شیلڈ پیش کی اور اسی طرح سرپرست مرکز افکار کی جانب سے علامہ سید شہنشاہ حسین نقوی کو نہج البلاغہ کی ترویج کے سلسلہ میں ان کی خدمات پر اعزازی شیلڈ بھی پیش کی گئی۔










آپ کا تبصرہ