حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ مسلمانوں ممالک کے درمیان نااتفاقی، ایک دوسرے کے دکھ درد اور مسائل سے الگ تھلگ رہنے کی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔57 اسلامی ممالک میں بہت سی مشترکہ اقدار اور بے پناہ دولت کے باوجود دنیا بھر میں مسلمان ہی ظلم و ستم کا شکار ہیں۔ کشمیریوں کا حق خود ارادی ختم کیا گیا،ہزاروں کو شہید کیا گیا لیکن مسلم حکمران اسے پاکستان کا مسئلہ قرار دے کر پہلو تہی کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے 57 رکن ممالک میں سے سات بھی ہماری حمایت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔حالانکہ پاکستان ایٹمی طاقت اورقدرتی وسائل سے مالا مال ہے لیکن داخلی استحکام نہ ہونے اور دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی وجہ سے عالمی برادری میں اپنا مقام نہیں بنا سکا۔ہمارے سیاستدان ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے دست و گریباں ہیں۔خود انحصاری کی بجائے گداگری ہرگز موجب عزت نہیں ہوتی چاہے یہ غیر مسلموں سے ہو یا اپنوں سے۔ملکی سطح پر دینے والے اپنے ہوں یا غیر، انہیں اپنے قومی مفادات عزیز ہوتے ہیں۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطین کے مسئلہ کو اسلامی یا عرب حمیت کا معاملہ قرار دینے کی بجائے فلسطین اوراسرائیل تنازعہ قرار دے کر جان چھڑائی جاتی ہے۔یہی صورت حال مظلوم یمن کی ہے۔
جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاون میں خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ قرآنی تعلیمات میں اللہ کی وحدانیت پر بہت زیادہ آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ انبیائؑ اور معصوم ہستیاں بھی اُس کی محتاج ہیں اور خلقت ، رزق سمیت کوئی بھی اُس کا شریک نہیں۔
حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ مساجد میں نمازیوں کی تعداد آبادی کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔ہمیںنیکیوں کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔سماجی رفاہی کاموں کا بہت اجر و ثواب ہے۔کسی کی تعلیم کا بندوبست اور دیگر صدقات جاریہ کا بے حد اجر ہے۔کسی نے ایک مرتبہ بھی کسی مسجد پرخرچ کیا تو اسے ہمیشہ ثواب ملے گا چاہے اس مسجد کی کئی بار نئی تعمیر بھی کی جائے۔ایسے کام اللہ کے ہاں اجر کے علاوہ لوگوں کے دلوں میں بھی محبت پیدا ہونے کا موجب ہوتے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ' رحمن لوگوں کے دلوں میں اُن صاحبانِ ایمان کی محبت پیدا کرے گا جو اچھے کام کرتے ہیں'۔اچھے کام بہت سے ہیں جن میں عبادت، اخلاق، حسنہ ،مخلوقِ خدا کی خدمت، کسی کو تکلیف نہ پہنچانا، اچھے کاموں میں تعاون کرنا وغیرہ۔جتنا کوئی دوسروں سے نیکی کرے گا ، وہ لوگوں میں اتنا ہی محبوب ہو گا۔ جو گھر کی حد تک اچھا ہوگا اس کی محبت گھر والوں کے دل میں ہوگی اور جو محلہ والوں سے اچھا سلوک کرے گا ،اہلِ محلہ اس سے محبت کریں گے ۔اسی طرح اچھائی کا دائرہ بڑھنے کے ساتھ محبت و عقیدت کا دائرہ بھی بڑھتا جائے گا۔ کچھ لوگ ایسے کام کرتے ہیں جو پوری انسانیت کے لئے مفید ہوں تو وہ تمام انسانوں کی محبت کا محور قرار پاتے ہیں۔اہل بیت علیہم السلام وہ ہستیاں ہیں جن کا ایمان اور نیکیاں اُس درجہ کی ہیں کہ تمام اچھے انسان ان سے محبت کرتے ہیں۔یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے کبھی اول وقت نماز میں بھی تاخیر نہیں کی۔ایک مرتبہ جب علی علیہ السلام کی نمازمیں حضورسرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِاقدس کے گود میں ہونے کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو آں حضرت کی دعا سے سورج پلٹ آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن سے نصیحت حاصل کرنے کی بار بار تاکید کی ہے۔ارشاد ہوا ہم نے قرآن کو نصیحت حاصل کرنے کے لئے آسان بنایا ، کوئی نصیحت حاصل توکرے۔قرآن قبرستانوں اور دولہا کے گزارنے کے لئے نہیں بلکہ پوری زندگی کی رہنما کتاب ہے، بشرطیکہ ترجمہ کے ساتھ تلاوت کی جائے۔