۱۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۸ شوال ۱۴۴۵ | May 7, 2024
شکست اسرائیل

حوزہ/ "حالیہ جنگی صورت حال نے اس قاتل رجیم کو اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے کہ اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنونی اقدام نہ صرف اس کی بنیادوں کو ہلا دے گا بلکہ اس کے خلاف مزاحمتی محاذ کا گھیراو پہلے سے زیادہ تنگ ہو جائے گا‘‘۔

تجزیہ: مولانا نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | غزہ و اسرائیل کی جنگ مشرق وسطی کو اپنی لپیٹ میں لیتی جا رہی ہے ، یمن کے حوثیوں نے حال ہی میں امریکہ کے جہاز کو نشانہ بنا کر اپنے عزم کا واضح اظہار کر دیا ہے کہ ہم تمہارے حملوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ مشکل گھڑی میں کھڑے ہیں ، لبنان سے حال ہی میں داغے جانے والے راکٹس اسرائیل میں ہلاکتوں کی وجہ سے صہیونی حکومت کا درد سر بنے ہوئے ہیں ایسے میں عبری ذرائع ابلاغ خاص کر حکومت کی پالیسی کو نشانہ بنا تے ہوئے اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ابھی تک ہم اپنے اہداف میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں لہذا جنگی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے ۔

گزشتہ سو دنوں سے زیادہ غزہ کے بے گناہ لوگوں پر بم برسانے کے بعد بھی صہیونی حکومت اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے اس کی مسلسل ناکامیوں کی بنیاد پر جھنجھلاہٹ جگ ظاہر ہے ، یہی وجہ ہے کہ جنگ کے شعلے مزید بھڑک رہے ہیں اور غزہ تک محدود نہ ہو کر یہ جنگ شام ، یمن ، لبنان تک پھیل چکی ہے ، گزشتہ چند دنوں قبل شام میں ایران کے سینئر کمانڈر پر اسرائیل نے حملہ کر کے مشرق وسطی کو ایسے بارود کے انبار میں تبدیل کر دیا ہے کہ محض ایک بے احتیاطی کی چنگاری پورے خطے کو اپنی چپیٹ میں لے سکتی ہے یا د رہے بیتے دنوں شام میں ایک سینیئر ایرانی کمانڈر سید رضی موسوی کو ایک مبینہ اسرائیلی حملے میں شہید کر دیا گیا جس کے بعد سے مشرق وسطی کے حالات کشیدہ اور نا بہ گفتہ ہیں کبھی بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے انتقامی کاروائی ہو سکتی ہے ۔نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی تسنیم کے مطابق سید رضی موسوی پاسداران انقلاب کے ایک ’تجربہ کار فوجی مشیر‘ تھے جنھیں دمشق کے جنوب مشرق میں سیدہ زینب کے علاقے میں ایک فضائی حملے میں شہید کر دیا گیا ۔ دمشق میں ایرانی سفیر حسین اکبری نے کہا ہے کہ موسوی ایرانی سفارتخانے میں کام کرتے تھے، وہ دوپہر دو بجے دفتر سے نکل کر گھر گئے جہاں ان پر اسرائیلی میزائل حملہ ہوا۔سپاہ پاسداران انقلاب نے متنبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو ’اس جرم کی قیمت چکانے پڑے گی۔‘ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے کہا ہے کہ انسداد دہشتگردی کے معاونین میں سے ایک ایرانی جنرل موسوی کو ’بزدلانہ‘ اقدام کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے مگر ’ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ضروری اقدام کرے اور صحیح وقت اور جگہ پر اس کا جواب دے۔

ایران کے آرمی چیف جنرل باقری نے اس سلسلہ سے جاری اپنے بیان میں کہ ا’’غاصب صیہونی حکومت کے بزدلانہ حملے میں سپاہ اسلام کے قابل فخر کمانڈر، شہید قدس جنرل قاسم سلیمانی کے دیرینہ دوست اور ساتھی شہید سید رضی موسوی کی شہادت نے صیہونی رجیم کی ایک بار پھر شام کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کو برملا کر کے تباہی کے دہانے پر کھڑی اس دہشت گرد رجیم کے چہرے سے نقاب نوچ لیا ہے۔

بریگیڈیئر جنرل موسوی شام کی قانونی حکومت کی سرکاری دعوت پر فوجی مشیر کے طور پر اس ملک میں موجود تھے اور دہشت گردی سے نمٹنے کا طویل تجربہ رکھتے تھے۔

صیہونی حکومت تمام تر دعوؤں کے باوجود طوفان الاقصی آپریشن کے بعد ان سو دنوں سے زائد عرصے کے دوران غزہ کے رہائشی مراکز اور ہسپتالوں پر وحشیانہ حملے کے علاوہ کوئی ٹھوس فوجی کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اب وہ کوشش کر رہی ہے کہ اس خود ساختہ دلدل سے نکلنے اور عالمی رائے عامہ کی توجہ اپنے جرائم سے ہٹانے کے لئے تنازعات کا دائرہ خطے تک پھیلائے تاکہ اپنے اتحادیوں کو اس معرکے میں پھنسا کر اپنی نابودی کا علاج کر سکے۔

شہید جنرل سید رضی موسوی کا قتل بھی اسی فریب کارانہ فریم ورک میں کیا گیا ہے لیکن جرائم پیشہ صیہونی حکام حسب سابق اسٹریٹجک غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔ وہ ابھی تک حالیہ واقعات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بحران سے نہیں نکل پائے ہیں تو اس شہید کے قتل کی اسٹریٹجک غلطی کے مضمرات سے کبھی چھٹکارہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔

حالیہ جنگی صورت حال نے اس قاتل رجیم کو اس مرحلے پر پہنچا دیا ہے کہ اس کا کوئی بھی دہشت گردانہ اور جنونی اقدام نہ صرف اس کی بنیادوں کو ہلا دے گا بلکہ اس کے خلاف مزاحمتی محاذ کا گھیراو پہلے سے زیادہ تنگ ہو جائے گا‘‘۔

جنرل باقری کے اس تعزیتی بیان کے بین السطور میں اسرائیل کے لئے انتقامی کاروائی کے بھڑکتے شعلوں کو دیکھا جا سکتا ہے یہ سب ایسے حالات میں ہو رہا ہے کہ عام ہلاکتوں کے علاوہ اسرائیل کو غزہ میں ابھی تک کچھ حاصل نہ ہو سکا ہے

غزہ میں عام ہلاکتیں اور اسرائیل کی سفاکیت :

غزہ پر سیکڑوں ٹن بم گرانے ، اسپتالوں ، اسکولوں اور مدرسوں نیز مساجد و عام رہائشی علاقوں کو ملبوں میں تبدیل کر دینے کے بعد بھی اسرائیل کو ابھی تک وہ سب کچھ حاصل نہ ہو سکا جو اسے چاہیے تھا جنگ کے ہر دن کے گزرنے کے ساتھ ہی اسرائیل کے خلاف دنیا میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے جبکہ روز بروز بچوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور مسلسل اسرائیل کو جنگ میں ناکامی کا منھ دیکھنا پڑ رہا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے حماس کو تباہ کرنے اور یرغمالیوں کو اسرائیل واپس لانے کا پھر ذکر کیا ہے ۔ گزشتہ ماہ انھوں نے اپنی لیکوڈ پارٹی کے ایک اجلاس میں بتایا کہ غزہ کے دورے کے دوران ان سے ملاقات کرنے والے فوجیوں نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ لڑائی جاری رکھے۔اس لیے ہم نہیں رکیں گے، ہم لڑتے رہتے رہیں گے اور آنے والے دنوں میں لڑائی کو مزید شدید کریں گے اور یہ ایک طویل لڑائی ہوگی اور یہ جلد ختم نہیں کریں گے۔‘ دوسری طرف خود اسرائیلی میڈیا اس کے برخلاف کھل کر اس بات کو بیان کر رہا ہے کہ جو کچھ نیتن یاہو کے دماغ میں چل رہا ہے اسکا عملی ہونا مشکل ہے عجیب بات یہ ہے کہ بعض رپورٹوں کے مطابق اسرائیلی فوج کے ایک افسر نے کہا ہے کہ ہمیں حماس کی تمام سرنگوں کو تباہ کرنے کے لیے دنیا کے تمام بموں کی ضرورت ہے اس کے بعد بھی ممکن ہے یہ کافی نہ ہو ۔

عبری میڈیا میں اسرائیل کی شکست کا اعتراف :

عبرانی میڈیا نے اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں فوج کی سست پیش قدمی کی وجہ سے امریکہ اسرائیل سے مایوس ہے۔ واشنگٹن کا خیال تھا کہ اس دوران فوج غزہ کی پٹی کے مزید علاقوں میں داخل ہو سکے گی بعض تجزہ کاروں نے لکھا ہے کہ

"اسرائیلی فوج کو جنگ کے خاتمے کی بو آ رہی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ اس سے پہلے کچھ کامیابیاں حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے،" یہ تل ابیب کی مہم جوئی کے جاری رہنے اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے جنگ جاری رکھنے پر اصرار کی وجوہات کا خلاصہ ہے۔

اسرائیلی اخبار کے تجزیہ کار نہم برنیا نے کہا؛ اسرائیلی فوج کی غزہ میں پیش قدمی میں مسلسل ناکامیوں اور سینکڑوں افراد کی فوجی ہلاکتوں میں اضافے کے بعد گولانی بریگیڈ نے گزشتہ دنوں اعلان کیا کہ وہ غزہ کی پٹی سے انخلاء کر رہی ہے۔ عبرانی میڈیا اسرائیلی فوجیوں کی غزہ سے باہر منتقلی کے عمل کی تصاویر دوبارہ شائع کر رہا ہے۔

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے حال ہی میں اعدادوشمار شائع کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ''حملوں کے پہلے 6 ہفتوں میں اسرائیل نے غزہ کے عوام پر 22 ہزار امریکی بم گرائے۔ 7 اکتوبر سے اب تک امریکہ اسرائیل کو 15000 بم دے چکا ہے جن میں ایک ٹن راک بلاسٹنگ بم بھی شامل ہیں۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو پچھلے ماہ شائع ہوئی ہے اب تو حالات اور بھی بدتر ہو چکے ہیں

اس رپورٹ کی اشاعت کے ساتھ، CNN نے اعلان کیا کہ اسرائیل نے غزہ کے لوگوں پر سینکڑوں ٹن بم گرائے ہیں اور فضائی تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ اس علاقے میں 12 میٹر قطر کے 500 سے زیادہ گڑھے بن چکے ہیں۔ جن سے اسرائیلی حملوں کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

غزہ حکومت کے انفارمیشن آفس کے سربراہ سلامہ معروف نے الجزیرہ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حکومت کے فوجیوں نے غزہ پر 40 ہزار ٹن دھماکہ خیز مواد گرا دیا ہے اور اس علاقے کو ناقابل رہائش مقام میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

فارس بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روزنامہ ہارتیزکی رپورٹ کہا گیا ہے کہ اسرائیل کو اپنی شکست تسلیم کرنا ہوگی۔ غزہ میں شروع ہونے والی یہ لڑائی 7 اکتوبر سے ہی اسرائیل کی شکست کے انجام پر منتہی ہو چکی تھی ۔ بعض اسرائیلی تجزیہ کاروں جنگ پر تبصہ کرتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ بظاہر چند ہفتوں ختم ہونے والی جنگ مسلسل بڑھتی جا رہی ہے یوں بین الاقوامی دباؤ کے نتیجے میں یہ خوفناک جنگ چند ہفتوں میں ختم ہونے کی امید تھی۔ لیکن اب اسرائیل اس سے زیادہ مشکل صورتحال میں ہے جو حماس کے حملے کے نتیجے میں ہمارے سامنے آئی تھی۔ شوگن نامی اس اسرائیلی تجزیہ کار نے زور دے کر کہا کہ شکست سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہو گی، ہم نے اس حملے کے دوران فوج کے اعلان کردہ اہداف میں سے کوئی بھی حاصل نہیں کیا جس میں اپنے قیدیوں کی واپسی بھی شامل ہے۔

ایک اور حصے میں انھوں نے "اسرائیل کی بین الاقوامی حیثیت میں بے مثال گراوٹ" کی طرف اشارہ کیا اور لکھا کہ اس مسئلے سے تل ابیب کے اس کے دوست ممالک بالخصوص امریکہ کے ساتھ تعلقات کو خطرہ ہے۔

ہاریٹز کے کالم نگار نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ بیرونی ممالک اسرائیلیوں کو کوڑھیوں کے طور پر دیکھتے ہیں، لکھا ہے کہ خطے کے ممالک کے مقابلے ہماری پوزیشن میں بھی بہت کمی آئی ہے۔

شوکن نے مقبوضہ علاقوں کی شمالی سرحدوں میں ہونے والے تنازعات کی طرف بھی اشارہ کیا اور کہا کہ حزب اللہ کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے روکنے کے دعووں کے برعکس، اسرائیل ایک مزاحمتی طاقت کےسامنے کھڑا ہے۔

یاد رہے گزشتہ دنوں لبنانی حزب اللہ نے اسرائیلیوں کو امن سے محروم کر دیا ہے اور غزہ میں جنگ کے خاتمے تک حملے جاری رکھنے پر زور دیا ہے جس کا مقصد اسرائیلی فوجیوں کو سرحد کے ساتھ ساتھ شمالی بستیوں میں بھی ٹھکانے لگانا ہے۔ جو اہداف حزب اللہ نے اپنے لئے متعین کئے تھے ایک کے بعد ایک ان کا حصول اور اسرائیل کی مسلسل ہار نے مشرق وسطی میں منظر نامے کو واضح کر دیا ہے جو کچھ ابہام تھا وہ شہید رضی موسوی کے پاک خون نے اور بھی صاف کر دیا جس کی روشنی میں اسرائیل کی نابودی کے نقوش کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .