۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
دیدار رییس دانشگاه علوم پزشکی قم با آیت الله اعرافی
انسانی معاشرہ ایک نجات دہندہ  کی ضرورت کو محسوس کررہا ہے/ طلباء کو چاہئے کہ وہ کرونا کے بعد مطالعہ کے لئے منصوبہ بندی کریں۔

حوزہ / ایران میں دینی مدارس کے سربراه آیت اللہ اعرافی  نے دنیا بھر کے دینی مدارس کے اسکالرز ، طلاب دینی، فضلاء اور مدارس علمیہ کے سرپرست حضرات کو اپنے ایک پیغام میں ممکنہ وسائل کے ذریعہ مدارس کی علمی فعالیت کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایرانی دینی مدارس کے سربراہ آیت اللہ اعرافی نے  دینی مدارس کے اسکالرز ، طلاب دینی، فضلاء اور مدارس علمیہ کے سرپرست حضرات کو اپنے ایک پیغام میں ممکنہ وسائل کے ذریعہ مدارس کی علمی فعالیت کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا  اور کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذکر کرتے ہوئے  طلبا کی خدمات کو سراہا ۔

آیت اللہ اعرافی کے پیغام کا متن اس طرح ہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انه هو خیر ناصر و معین و صلی الله علی محمد وآله الطاهرین لاسیما بقية الله عجل الله تعالی فرجه فی الارضین

طلاب، فضلاء اور دنیا بھر میں دینی مدارس کے پرنسپل حضرات

سلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ

ماہ شعبان المعظم ختم ہوچکا۔ اس مہینے کی پربرکت موالید اور بالخصوص حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ کی پرمسرت میلاد بھی گذر گئی اور اب ماہ مبارک رمضان  خدا کی مہمانی، ماہ نزول قرآن کریم اور خدا،  پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی ابن ابی طالب(علیھما السلام) کے بے انتہا الطاف اور عنایات کی تجلی کا مہینہ ہے۔ میں اس انسان ساز مہینے کی آمد پر آپ سب کو مبارک باد اور تہنیت پیش کرتا ہوں اور آپ کی مخلصانہ خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اس فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے امام رضا علیہ السلام اور کریمہ اہلبیت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کے جوار سے کچھ باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

1. یہ مکتب قرآن کریم، نہج البلاغہ، صحیفہ سجادیہ، دعا­ؤں اوردلفریب روح پرور مناجات، احادیث کا عظیم ذخیرہ اور علوم اسلامی کے مآخذ کا مکتب ہے کہ علماء اور دینی علوم کے مراکز کو جس کی طول تاریخ میں پشت پناہی حاصل رہی ہے اور اسی مکتب  نے انہیں کمال اور بلندیوں کی چوٹیوں تک پہنچایا ہے اور اسی پشت پناہی اور الہی بصیرت و آگاہی کے نتیجہ میں انقلاب اسلامی معرض وجود میں آیا۔ معارف اہل بیت(علیہم السلام) کا احیاء ہوا اور امت اسلامی بیدار ہوئی اور خدا کے لطف و کرم سے اور اس کے پاک و پاکیزہ اولیاء کی ہدایت و رہنمائی کے پرتو یہ نورانی سفر ملک ایران، خطے اور باقی دنیا میں ہمیشہ درخشندہ اور  پھلتا پھولتا رہے گا۔

2.  مراجع تقلید اور دینی مدارس نے کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال میں اسلام کی خالص تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے اور صحت و سلامتی کے اصولوں اور طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے اور خدا کے فضل و کرم سے دشمن کے منفی پروپیگنڈے اور اپنوں کی غفلت اور نامہربانیوں کے باوجود یہ خدمت جاری رہے گی۔

3.  ان مصائب،  رنج اور مشکلات و سختیوں کے متعلق دین اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ انسانوں کے لئے آزمائشیں اور امتحانات الہی ہیں تاکہ ان مشکلات کا سامنا کر کے انسان مبداء و معاد کی طرف متوجہ ہو اور اپنا تذکیہ نفس کر کے بارگاہ خداوندی میں مناجات کرسکے۔ ایران اسلامی، حوزہ علمیہ اور بزرگ علماء نے دنیا کی اس نکتے کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے انہیں مناجات کی راہ کی طرف دعوت دی ہے۔

4. طلاب، فضلاء،  اساتذہ اور محققین اپنی عمومی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ فکر و عمل اور اسلام کے معنوی ذخائر سے استفادہ کرتے ہوئے بحرانوں اور مشکلات میں طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے موجودہ حالات میں امدادی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں چونکہ علماءکرام نے طول تاریخ میں لوگوں کی خدمت کرنے کو اپنے لئے فخر سمجھا ہے۔

5. کلام، فقہ اور اخلاق اسلامی میں اس قسم کے حوادث کے لئے دقیق احکام اور عقل پسند ہدایات موجود ہیں۔ یہ جامع احکام نہ صرف عقل کے تقاضوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ انہیں قبول کرتے ہیں۔ خدا کے فضل و کرم سے حوزہ علمیہ قم نے آج  ایسے ماہر افراد کی ٹیم تیار کرلی ہے جو تمدن اسلامی کا دفاع کر سکیں۔

6.  تاریخ اس بات پر شاہد ہوگی کہ حوزہ علمیہ اور علماءکرام نے رہبر انقلاب اسلامی اور مراجع تقلید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان تمام دشوار اور مشکل مراحل میں صحت وسلامتی کے اصولوں اور طبی ماہرین کی ہدایات پر عمل کیا ہے اور لوگوں کی صحت وسلامتی کے پیش نظر نماز جمعہ کے اجتماعات، نماز جماعت، مقامات مقدسہ کی زیارات اور دیگر مذہبی مناسک ترک کر دئیے ہیں اور ان حالات میں دین اسلام کے احکامات بیان کرنے سے دریغ نہیں کیا ہے اور تعمیری تنقید اور نصیحت آموز تجاویز دینے میں بھی غفلت نہیں برتی ہے اور طلباء دین کی بہت بڑی تعداد ملت کے دیگر افراد کے ساتھ امدادی کاموں میں مصروف ہے۔

7. حوزہ  علمیہ قم نے بین الاقوامی شخصیات، اداروں اور مختلف ادیان کے سربراہوں کو خط لکھ کر یہ الہی اور انسانی پیغام منتقل کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ توحیدی ادیان کا محاذ تشکیل دے کر ظلم و ستم، ناروا سلوک و جانبداری، عدم مساوات، جنگ، دہشت گردی اور انسانیت کے لیے خطرناک اسلحہ کی ترسیل کا رستہ روکا جاسکے۔

8. آج دنیا کے بعض علاقوں میں خدمت، مواسات اور دوستی کے واقعات نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے اور تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ جب بھی ملتیں خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوکر اٹھ کھڑی ہوئیں تو انہوں نے معجزہ کر دکھایا۔ دنیائے اسلام میں حالیہ چند سالوں میں اس قسم کے واقعات کثرت سے ملتے ہیں۔ خطہ میں مزاحمتی محاذ نے دشمن کے مقابلے میں ناقابل یقین کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے خدا کے فضل و کرم سے اپنے پرافتخار چالیس سالوں میں بے شمار کامیابیاں سمیٹی ہیں اور سختیوں کو آسانیوں اور چیلنجز کو فرصت میں تبدیل کر کے مستقبل کو بہتر بنانے کے لئے بنیادی قسم کے اقدامات کئے ہیں۔

9. افسوسناک امر یہ ہے کہ اس جان لیوا بیماری کے دوران دنیائے اسلام میں کچھ کج رویاں دیکھنے کو ملیں اور حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ایران، اسلام اور انقلاب کے دشمنوں نے زہر اگلنا شروع کر دیا اور اسلام و معارف اہل بیت(علیہم السلام)، انقلاب اسلامی کی اقدار، مذہبی و دینی مقدسات، علماء کرام حوزہ علمیہ اور نظام اسلامی پر زبان کے تندوتیز ترکش چلائے۔ اسلام، انقلاب اسلامی، ایران اور شہر قم کے خلاف منفی پروپیگنڈے کئے گئے لیکن اپنے آپ کو بہت طاقتور اور سپر پاور تصور کرنے والوں کی زبوں حالی اور اسلامی جمہوریہ ایران کی سربلندی اور طاقت و استعداد دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی۔

 سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ قم، حوزہ علمیہ اور علماء کرام سختیوں اور دشواریوں سے آشنا ہیں۔ وہ ملت ایران کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنی دیگر خدمات کو بھی جاری رکھیں گے اور تعمیری تنقید اور مفید تجاویز کا استقبال کریں گے۔ وہ اپنے آپ کو خطاؤں سے مبرا اور محفوظ بھی نہیں سمجھتے ہیں۔

10. یہ حادثہ دنیائے معاصر میں ایک نیا اتفاق ہے اور اس نے بشر کے افکار میں ایک لرزہ سا طاری کر دیا ہے۔ اس کے آثار اور نتائج بہت دیر تک رہیں گے اور اس کے متعلق مختلف قسم کے تجزئے اور تحلیلیں ہوتی رہیں گی۔  

اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص دنیائے اسلام کے علمی اور تحقیقی ادارے اس کے متعلق زیادہ تحقیقات اور مطالعہ کریں تاکہ آئندہ اس قسم کے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے آمادگی ہو۔

11. خدا کی مدد اور حضرت ولی عصر(ارواحنا فداہ)  کی عنایات سے حوزہ علمیہ قم اور ملک بھر میں دینی ادارے لوگوں کی خدمت کے ساتھ ساتھ اس حادثے کے متعلق تحقیق و جستجو میں مصروف ہیں اور اس سلسلہ میں اہم اقدامات کئے جا رہے ہیں اور آئندہ اس قسم کے دیگر حوادث میں ان تحقیقات اور علمی دستاویزات سے استفادہ کیا جائے گا۔

12. دینی مدارس کی بھرپور کوشش ہے کہ ان مدارس کے تعلیمی، تربیتی، اخلاقی، تبلیغی اور دیگر سسٹمز رکنے نہ پائیں اور اس سلسلہ میں جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے۔ الحمدللہ اس سلسلہ میں بہت پیشرفت ہوئی ہے اور اب دینی مدارس کے ابتدائی دروس سے لے کر اعلی سطح کے دروس آن لائن منعقد ہو رہے ہیں اور ان شاءاللہ ترقی و پیشرفت کا یہ سفر جاری رہے گا۔ اس فرصت سے استفادہ کرتے ہوئے ہمیں علمی پیشرفت کی رفتار کو بڑھانا ہوگا اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں سب کو اپنا حصہ ملانا ہوگا۔ 

13.  آج بشریت دنیا کے تمام نظاموں سے مایوس ہوچکی ہے۔ وہ علم و دانش اور ٹیکنالوجی میں ترقی و پیشرفت کے باوجود اپنے آپ کو پرسکون نہیں پاتی۔ اسے فقر و فاقہ، علاقائی اختلافات، فحاشی، ظلم و بے انصافی، جنگ و خونریزی اور ان جیسے دیگر بحرانوں کا سامنا ہے۔ آج کا انسان ان تمام بحرانوں اور چیلنجز سے پریشان اور تھک چکا ہے۔  آج کے انسان کو دیگر تمام زمانوں سے زیادہ ایک منجی اور نجات دہندہ کی ضرورت ہے۔ تمام ادیان میں ایک منجی الہی کی نوید موجود ہے لیکن اسلام اور تعلیمات اہلبیت(علیھم السلام) میں مہدویت کا تصور بہت روشن اور آشکار ہے۔ علماء کو چاہئے کہ وہ موجودہ حالات میں مہدویت کے تعارف کو سب سے اہم قرار دیں۔
14.  تمام ادوار میں حوزہ علمیہ کی سیاست ایک ہی رہی ہے اور یہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کی سیرت سے اخذ کی گئی ہے اور یہ سیاست دنیائے اسلام کے لئے اتحاد، اخوت اور برادری کی سیاست بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ادیان کے درمیان ہم آہنگی اور دنیا میں انسانی روابط پر استوار ہے البتہ حوزہ علمیہ معارف اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی تعلیمات کا شدت سے پابند ہے لیکن مذہبی عقائد کسی پر مسلط نہیں کرتا اور اس بات کا قائل ہے کہ معارف اہل بیت نہ صرف دنیائے اسلام کی وحدت کے لیے منافات نہیں رکھتے بلکہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کے باعث ہیں۔
حوزہ علمیہ تمام اسلامی مذاہب کے سوالات اور شبہات سننے کے لیے آمادہ و تیار ہے۔ ہماری تمام لائبریریوں میں تمام اسلامی مذاہب اور علماء اسلام کی کتب موجود ہیں اور ہمیں اپنی اس آزادی فکر پر فخر ہے۔ ہمارے دینی مدارس کی فضا عقل و خرد، منطق و براہین، اخلاق، آزادی اور اتحاد و یکجہتی پر استوار ہے اور ہم نے ہمیشہ مذاہب اسلامی کے علمی مراکز کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد انقلاب اسلامی نے بہت سارے اسلامی ممالک حتی کہ دنیا کے اکثر ممالک میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں اور اس کا طبیعی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ خالص اسلام اور اہل بیت(علیھم السلام) کی تعلیمات سے آشنا  ہوئے۔
حوزہ علمیہ کو یہ افتخار حاصل ہے کہ اس نے انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں انقلاب اسلامی کی ترویج کی ہے۔
آخر میں میری طلاب اور جوان فضلاء سے گذارش ہے کہ وہ دنیا بھر کے دینی مدارس ہے ہم فکر اور ہم آہنگ ہو کر اسلامی تمدن، توحید اور اسلامی معارف کی ترویج کے سلسلہ میں جدید وسائل سے استفادہ کریں۔ میں ان کی خیر وسلامتی کی آرزو کرتا ہوں۔
حوزہ علمیہ دنیا بھر کے دینی مدارس سے اپنے تجربات اور علمی ثمرات شیئر کرنے کے لیے تیار ہے۔ تمام دینی مدارس کے اہداف کے حصول کے لئے ائمہ معصومین علیھم السلام اور بالخصوص حضرت صاحب العصر عجّل اللہ تعالی فرجہ شریف کے نورانی وجود سے مدد اور رہنمائی کا طلبگار ہوں۔
و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمین
 علی رضا اعرافی
سرپرست اعلی مدارس علمیه، جمہوری اسلامی ایران
 اول رمضان المبارک ۱۴۴۱ھ

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .