۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
تصاویر / دیدار اعضای مجمع الذاکرین یارباب (س) استان تهران با آیت الله العظمی علوی گرگانی

حوزہ/حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں : خداوند تمام انسانوں کو آزماتا  ہے کبھی  بہت ساری نعمتوں سے ، کبھی خشک سالی ، قحطی اور کبھی غربت سے ، یہ سب آزمائش کےلئے ہے۔ تاکہ دیکھا جاسکے کہ انسان خدا کا کتنا  فرمانبردار ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت اللہ العظمی علوی گرگانی نے رمضان المبارک کے سلسلہ وار دروس کے دوران سورہ مبارکہ نساء کی 66ویں آیت: وَلَوْ أَنَّا کَتَبْنَا عَلَیْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنْفُسَکُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِنْ دِیَارِکُمْ مَا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِیلٌ مِنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا یُوعَظُونَ بِهِ لَکَانَ خَیْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِیتًا  کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: خدائےتعالیٰ اس آیت میں ارشاد فرماتا ہے:( ہم نے کوئی مشکل فرض ان کے کاندھوں پر نہیں ڈالا) اگر ( بعض گذشتہ امتوں کی طرح) انہیں بھی ہم حکم دیتے کہ ایک دوسرے کو قتل کریں یا اپنے وطن سے نکل جائیں تو بہت تھوڑے لوگ اس پر عمل کرتے اور اگر وہ ان نصیحتوں پر چلتے تو ان کے فائدہ میں تھا کیونکہ ایسا کرنا ان کے ایمان کی تقویت کا سبب بنتا ۔

آپ نے مزید کہا: امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ خداوند متعال تمام انسانوں کو کبھی بہت ساری نعمتیں دے کر  ، کبھی خشک سالی ، قحطی ، اور کبھی فقر و غربت کے ذریعے سے آزماتا ہے، تاکہ دیکھا جا سکے کہ کس قدر انسان خدا کا مطیع و پیروکار ہے.
انہوں نے بیان کیا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی ایک روایت ہے ، جسمیں آپ علیہ السلام کہتے ہیں:بنی اسرائیل کا ایک نبی کسی علاقے سے گزر رہے تھے، انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ جس کے  جسم کا آدھا حصہ دیوار کے اندر اور آدھا حصہ دیوار کے باہر ہے ، اور جو حصہ دیوار سے باہر تھا، اسے جنگلی جانور چیڑ پھاڑ رہے تھے ۔ وہ نبی فرماتے ہیں :کہ یہ انسان مومن جس کے وجود میں ذرہ برابر شرک نہیں تھا ، لیکن آج وہ اس مسئلے سے دوچار ہے ، انکو اس مسئلے سے تعجب ہوا، یہ نبی شہر میں داخل ہوئے ، شہر میں انکو معلوم  ہوا کہ جہاں ایک ظالم و جابر شخص کا انتقال ہوا ہے لیکن اسکی تشییع کے لئے شہر والے سارے آئے ہوئے ہیں، اس نبی نے خداوند متعال سے اس  معاملے کی حکمت کا تعین کرنے کی خواہش ظاہر کی ، خدائے تعالیٰ نے اپنے نبی کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کا فلسفہ یہ ہے کہ یہ انسان مومن کے نامہ اعمال میں کچھ برائیاں تھیں ،
میں اس مومن  کی برائیوں کی سزا اسی دنیا میں ہی دینا چاہتا ہوں تاکہ قیامت کے میدان میں پاک و پاکیزہ داخل ہو سکے  ، لیکن وہ ظالم و جابر شخص ، اگرچہ برا اور ظالم تھا ، لیکن اس کے نامہ اعمال میں کچھ نیکیاں تھیں ، میں چاہتا تھا کہ اس کے نیک اعمال کی جزا اسی دنیا میں ہی دوں تاکہ قیامت کے روز مجھ سے کچھ طلب نہ کر سکے. 

انہوں نے گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ  ہمیں بہت ہی ہوشیاری اور بصیرت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی ضرورت ہے ، لہذا دنیوی خواہشات میں غرق اور محض دنیوی زندگی سے وابستہ رہنے سے گریز کرنا چاہیے. اس سلسلے میں امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ہم آپ سب کو آزمائیں گے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ قیامت کے دن آپ میں سے کون حقیقی مقام تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے ۔
انہوں نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے بیان کیا کہ خدا انسان سے پیار اور محبت کرتا ہے ، اگر کوئی شخص اس دوستی کا وفادار ہو ، تو اچھی زندگی بسر کرتے ہوئے خدا ، انبیاء  اور  آئمہ طاہرین علیہم السلام کے فرامین کو سنے، تاکہ خداوند متعال قیامت کے روز اعلیٰ مقام سے نواز دے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .