۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
نشست تخصصی القدس به زبان اردو

حوزہ/ یوم القدس کی مناسبت القدس کانفرنس کا انعقاد حوزہ نیوز ایجنسی کے ہیڈ آفس قم میں ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق  یوم القدس کی مناسبت القدس کانفرنس کا انعقاد حوزہ نیوز ایجنسی کے ہیڈ آفس قم میں ہوا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم پاکستان کے سیکرٹری امور خارجہ علامہ شفقت حسین شیرازی نے کہا کہ پاکستان کے اندر ہر طرح سے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جاتا چاہے عوامی سطح ہو یا حکومتی حتی ہمارے پاسپورٹ پر لکھا ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے دیگر تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے اگر چہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی سطح پر خطرات کا سامنا سے  ہے لیکن مسئلہ فلسطین وہ واحد مسئلہ ہے جس پر پاکستان کی ہر قوم متحد ہے یہ سب امام راحل کے فتوے کا ثمرہ ہے آپ کل کی ریلیوں میں ملاحظہ فرمائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر بھی کرونا کی صورتحال موجود ہے اس حوالے سے شرائط کو مد نظر رکھا جائے گا اور احتیاطی تدابیر بھی گورنمنٹ کی طرف سے طے ہو چکی ہیں 
لیکن ہم احتیاطی تدابیر کے ساتھ ریلی نکالیں گے اسکے علاوہ ہمارے پاس سوشل میڈیا ہے الیکٹرانک میڈیا ہے اسکے ذریعے سے ہم اپنی آواز کو بلند کریں گے مجلس نے فلسطین کے حوالے سے پریس کانفرنس بلائی تھی جس میں اپنا موقف پیش کیا ہے اور آج بھی کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے کانفرنس بلائی جارہی ہے جس میں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام اور حکومتی ارکان شریک ہونگے قدس کے حوالے سے یہ سال باقی سالوں سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ٹرمپ چاہتا ہے کہ تقریباً پورا فلسطین کو ہی اسرائیل کے حوالے کردیا جائے اور وہ چاہتا ہے کہ فلسطین نامی کوئی ملک ہی دنیا میں باقی نہ رہے اور انکو سعودی عرب قطر اور بحرین کی پشت پناہی حاصل ہے 
اس بنا پر ہمارا ارادہ ہے کہ ریلیاں احتیاطی تدابیر کے ساتھ پہلے سے بہتر انداز میں نکالیں گے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانا کم سے کم درجہ ہے دل سے نفرت کرنا جب ظلم ثابت ہو جائے تو جو لوگ حریت پسند ہیں وہ خود ہی ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں گے 
ظلم کے خاتمے کے لیے آواز اٹھانا ضروری ہے دنیا میں اس وقت دو طاقت موجود ہیں ایک صہونیست کا نفوذ دوسری حریت پسندوں اور حق پرست اور مقاومت کا سلسلہ ہے 
مقاومت جسکی بنیاد امام راحل نے رکھی تھی اور اب رہبر معظم انقلاب کی رہنمائی میں مقاومت کا سلسلہ جاری ہے آج دشمن جو چاہے نہیں کر سکتا کیونکہ مقاومت مضبوط ہو چکی ہے۔
انھوں نے کہا کہ نصرت حق کے لئے ،ظالم کے ظلم کو عیاں کرنے میں میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے اسکے ذریعے آپ اپنا موقف پہنچا سکتے ہیں کیونکہ یہ نسبتاً آزاد ہے اس کے ذریعے مختلف زاویوں سے آپ اپنی آواز کو دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔

علامہ شفقت حسین شیرازی نے مزید کہا کہ اپنے داخلی مسائل میں گرفتار ہونے کے باوجود امام خمینیؒ نے روز قدس کا اعلان کیا اور عالم اسلام کو متوجہ کیا کہ اسلامی سرزمین پر اسرائیل کا قبضہ کسی صورت برداشت نہیں ہے اس لیے اسلامی دنیا کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور اس ناجائز حکومت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے جو طاقت کے بل بوتے پر فلسطینی عوام کی زمین چھیننے پر تلی ہے، اور یہ اسرائیل ایک غیر قانونی اسٹیٹ ہے اور اسکا غاصبانہ قبضہ ہے جہاں پر ہر جگہ سے لوگوں کو بلا بلا کر بسایا جارہا ہے اور فلسطینیوں کی زمیں پر انہیں پناہ ملنے کے بجائے دوسروں کو پناه دی جارہی ہے ااور زبردستی قبضہ کیا جارہا ہے لیکن یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ زبردستی کی چیزیں کبھی بھی دوامی نہیں ہوتیں اور انہیں مٹنا ہی پڑتا ہےاور اسرائیل بھی نابود ہوکر رہے گا جسکی شروعات امام خمینیؒ نے اسرائیل کا پرچم گراکر اور فلسطین کا پرچم لہرا کر کیا تھا۔

کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان سے تعلق  رکھنے والے معروف عالم دین اور استاد حوزہ علمیہ قم علامہ منتظر مہدی رضوی نے کہا کہ انڈیا کی تاریخ کی ابتداء میں کوئی ایسا گروہ تھا ہی نہیں جو اسرائیل کا مخالف نہ ہو یعنی سب ہی مخالف تھے حتی ابتداء میں انڈیا کے پاسپورٹ پر بھی لکھا ہوتا تھا کہ یہ پاسپورٹ دنیا کے تمام ممالک کے لیے کار آمد ہے سوائے اسرائیل کے اب سیاست دانوں کے طور و طریقے بدل گئے اسے ہٹا دیا گیا ہے لیکن آج بھی انڈیا کے قانون اور آئین میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کی گنجائش موجود نہیں ہے جہاں تک آواز بلند کرنے کی بات ہے وہ سلسلہ بھی تقریباً شروع سے ہی چلا آ رہا ہے اب اسکا دائرہ وسیع ہو گیا ہے وہ اس لئے کہ امام راحل کی سیاسی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے انکے فتوے کا اثر ہندوستان کے پورے مسلمانوں پر خصوصی طور پر شیعون پر پڑا اب ہندوستان میں جہاں بھی جمعہ منعقد ہوتا ہے وہاں قدس کا تذکرہ کیا جاتا ہے اور اسرائیل کے خلاف بیان دیا جاتا ہے اور ریلیوں کا سلسلہ آپ کے سامنے ہے۔

انھوں نے کہا کہ  شاید اس دفعہ کرونا کی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ریلیوں کا سلسلہ پہلے جیسا نہ ہو کیونکہ میڈیکل تقاضوں کا خیال بھی ضروری ہوتا ہے 
لیکن آواز اٹھانے کا سلسلہ میڈیا ،سوشل میڈیا کے ذریعے ،علماء اور مذہبی رہنما ،ذاکرین کے بیانات کے ذریعے جاری ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ البتہ ہمیں ظالم کو ظالم کہنا ہے اور مظلوم کو مظلوم کہنا ہے لیکن انداز بیان کا خیال رہے پیغام مختصر ہو ظالم تک ہمارا موقف واضح طریقے سے پہنچ سکے اتنا مختصر ہو کہ سننے والوں کو سننے میں لطف آئے 
ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا انسانیت کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہے اور انبیاء کرام و آئمہ علیہم السلام کی سنت میں سے ہے حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ظالم کے خلاف اٹھ جاؤ اور مظلومین کے ساتھ دو آج مظلومین کی حمایت کرنا عقلی اور شرعی حیثیت سے ہم سب پر فرض ہے۔

علامہ سید منتظر مهدی کہا کہ تعاونوا علیٰ البر والتقویٰ ولاتعاونوا علیٰ الاثم والعدوان؛ اس آیت کے پیش نظر ظالموں کا ساتھ نہیں دینا ہے اور ہر حال میں مظلوم کی حمایت کرنی ہے اس بنا پر غاصب اسرئیل کے خلاف آواز بلند کرنا اسلامی تربیت کا اٹوٹ حصہ ہے جسے ہمیں اپنانا ہوگا کیونکہ یہی وہ منزل ہے جہاں صاف واضح ہوجاتا ہے کہ کون کون اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہے اور کون فقط نام لیوا اسلام کا حامی ہے؛ قدس کا مسئلہ عالمی ہے اور یہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، جس زمانے میں یہ مسئلہ پیش آیا تھا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی زمینیں ہڑپنا شروع کردی تھیں تو عالم تشیع سے علماء و مراجع نے صدائے احتجاج بلند کی تھی جیسے شیخ کاشف الغطاء اور ہندوستان سے بھی اسکی مخالفت میں گاندھی جی نے آواز بلند کی اور اسے ناجائز پیداوار مانا تھا۔

انھوں نے کہا کہ امام خمینیؒ کے روز قدس کی اہمیت کے اعلان کے بعد هندوستان میں بڑے زور و شور سے اس دن کا اہتمام ہوتا چلا آرہا ہے اسی وجہ سے پہلے زمانے مین  جب کبھی ایسا ہوتا تھا کہ امام جمعہ بھول سے روز قدس کا ذکر کرنا فراموش کر جاتا تھا تو عوام یاددہانی کراتی تھی کہ حضور آپ نے روز قدس کا ذکر نہیں کیا تو پھر امام جمعہ کو کہنا پڑتا تھا کہ ابھی نماز کے بعد مجلس میں ذکر کیا جائے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .