حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ،حجۃ الاسلام و المسلمین ناصر رفیعی نے حرم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا میں زائرین سے خطاب کے دوران،سورہ مبارکہ بقرہ آیۃ 195کی روشنی میں حج اور عمرے سے متعلق بیان کیا کہ شوال،ذی القعدہ اور ذی الحجۃ حج کے مہینے ہیں کیونکہ حج کے اعمال ان تین مہینوں میں انجام دیئے جاتے ہیں۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ حج حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے،مزید کہا کہ جب حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھی تو خدا کی بارگاہ میں دعا کی کہ خدایا! اس عمل کو ہم سے قبول فرما،ہمیں اپنے فرمانبردار قرار دے اورمناسک حج کی تعلیم دے اور روایت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ خانۂ کعبۂ کو خالی نہیں چھوڑیں۔
استاد حوزہ علمیہ نے بیان کیا کہ جب تک خانۂ کعبۂ قائم ہے دین محفوظ رہے گا،کہاکہ طول تاریخ میں خانۂ کعبۂ کی سرپرستی غیر قابل اعتماد افراد کے ہاتھوں میں رہی ہے لیکن اس دوران ہمارے آئمۂ کرام علیہم السلام حج پر جاتے تھے کیونکہ حج دین کی مضبوطی اور مسلمانوں کے اتحاد و وحدت کا باعث ہے۔
انہوں نے کہا کہ حج کی تین قسمیں ہیں:حج تمتع،یہ حج مکہ سے 96کلو میٹر فاصلے پر رہنے والے لوگوں کے ساتھ مختص ہے۔حج اِفراد،یہ حج اہلیان مکہ کے ساتھ مختص ہے اور تیسرا حج،حج عمرہ ہے،اس حج کو پورا سال بجا لایا جا سکتا ہے اور حج کے مہینوں کے ساتھ مختص نہیں ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین رفیعی نے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیۃ نمبر 195کو حج اور عمرے کے پہلے نکتے سے تعبیر کیا کہ حج اور عمرہ خدا کے لئے ہے،کہاکہ حج ایک تفریحی سفر نہیں ہے بلکہ حج صرف اور صرف خدا کے لئے ہونا چاہئے اور اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہئے اور اخلاص کی علامت یہ ہے کہ انسان دوسروں کی تشویق کا انتظار نہیں کرتا،دوسروں کی ملامت سے ناراض نہیں ہوتا اور حالات سے اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
استاد حوزہ علمیہ نے بیان کیا کہ امام حسن علیہ السلام نے 25مرتبہ پیدل حج کا سفر کیا اور اہل سنت کے معروف عالم دین علامۂ سیوطی کہتے ہیں کہ امام حسن علیہ السلام سواری کے باوجود پیدل حج پر جاتے تھے لیکن آپ علیہ السلام زخمی پیروں کے ساتھ اور سختیوں کو برداشت کرتے ہوئے حج کے عظیم سفر پر روانہ ہوتے تھے۔
استاد حوزہ علمیہ نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اسلام میں کثرت عمل عبادت نہیں ہے،کہاکہ احمد بن ہلال نے 51مرتبہ حج بجا لایا،عمر کے آخر میں منحرف ہوا اور امام معصوم کی لعنت کا مستحق قرار پایااورخداوند متعال سورہ مبارکہ ملک میں فرماتا ہے کہ ہمیں عمل صالح چاہئے نہ کہ کثرت عمل،لہذا ضروری ہے کہ ہمارا ہر فعل خدا کے لئے ہونا چاہئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سورہ مبارکہ بقرہ آیۃ نمبر195کا دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں کسی بھی وجہ سے حج ادا نہیں کر سکے تو ضروری ہے کہ وہیں پر ایک قربانی دے اور اس کے بعد سر کے بالوں کو منڈوائے اور احرام سے نکل آئے اور اگر کوئی شخص کسی بیماری کی وجہ سے سر کے بالوں کو منڈوا نہیں سکے تو ضروری ہے کہ کفارہ ادا کرے یا روزہ رکھ لے یا پھر صدقہ دے اور یہ احکام اہل مکہ کے ساتھ مختص نہیں ہیں بلکہ حج تمتع بجا لانے والوں کے ساتھ مختص ہیں۔
حجۃ الاسلام و المسلمین رفیعی نے گفتگو کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ بعد والی آیات میں خداوند کریم ارشاد فرماتا ہے:حج شوال،ذیقعدہ اور ذی الحجۃ کے مہینوں میں بجا لایا جاتا ہے اور احرام کی حالت میں زوج کا اپنی زوجہ سے جنسی تعلقات حرام ہے،گناہ اور قسم کھانے سے اجتناب کرنا چاہئے اور مزید فرماتا ہے کہ تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تقویٰ بہترین توشۂ ہے۔
انہوں نے تقویٰ کو ترک گناہ،اندرونی واعظ اور بہترین ہادی کے معانی سے تعبیر کیا اور کہا کہ تقویٰ انسان کو کوشش سے حاصل ہو جائے گا اور خدا نے قرآن مجید میں روزے کے واجب ہونے کی ایک دلیل کو انسانوں کے اندر تقویٰ کو مضبوطی قرار دیا ہے کیونکہ انسان اگر تقویٰ الٰہی اختیار کرے تو وہ ہر برائی سے بچ سکتا ہے۔