حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین سید رضی الموسوی نے جامع مسجد کشمیریاں لاہور میں خطبہ روز جمعہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یاد رکھیں عبادت چاہے وہ جماعت سے ہو چاہےفرادا ہو سکون اور توجہ شرط اول ہے دلچسپی سے نماز پڑھیں ایک اور چیز جو نماز سے قبل ضروری ہے اس کی جانب بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہےوضو عزیزان روایات میں ہے وضو انتہائی توجہ سے کرنا چاہیے
انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا حصہ نہ رہ جائے جہاں پانی نہ پہنچے یا پانی تو پہنچے لیکن وضو کاطریقہ غلط ہو مثال کےطور پر پانی تو پہنچ رہا ہےمگر آپ کہنی کو ہلارہےہیں ہاتھ کو کھینچنے کی بجائے آپ کہنی کو نیچےکی جانب کھینچتے ہیں یا سر کو مسح کے دوران ہلاتے ہیں یاپاوں کو مسح کے دوران ساکن نہیں رکھتے اس میں توجہ کی ضرورت ہے روایات میں بھی ہے کہ توجہ سےوضو کیا کریں تاکہ عبادات صحیح ہوں کیوں کہ اسی صحیح وضو کے اوپر ہماری نماز کھڑی ہے جب وضو ہی صحیح نہیں تو جماعت کا کیا فائدہ مل سکتا ہے کیونکہ وضو ہی باطل تھا پھر چاہے جماعت پڑھیں فرادا پڑھیں نماز ہی باطل ہوایاد رکھیں مسح کرنے والے اعضاء کا خشک ہونا بھی ضروری ہے سر اور پاوں ان کا قبل از مسح یا وضو خشک ہونا ضروری ہے باقی چہرے یا دیگر اعضا کا خشک ہونا ضروری نہیں ہے پھر یاد رکھیں اعضائے وضو کا پاک ہونا بھی ضروری ہے لہذا کوشش کریں طہارت اور پاکیزگی کے ساتھ نماز کو انجام دیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آج 25 دسمبر یوم ولادت قائد اعظم بھی ہے جس نے ان سخت حالات میں جب برصغیر مکمل طاغوتی نظام کے کنٹرول میں تھا برطانیہ برصغیر پرمسلط تھا کوئ بھی جب اس قابل نہ تھا کہ ایک الگ ملک کا مطالبہ کرتا اگر کرسکتا تو علی کا ملنگ کوئی قلندر ہی کرسکتا تھا اور یہ قائد اعظم محمد علی جناح وہ مرد قلندر تھا جس نے آزاد ملک کا مسلمانوں کا خواب پورا کیا یہ بہت بڑا تحفہ ہے پاکستان ہمارے لئے اس کا اجر اور ثواب اس مرد قلندر کے نامہ اعمال میں لکھا جارہا ہے اگر آج پاکستان نہ بنتا تو انڈیا کی طرف دیکھ لیں وہاں کیا حالات ہیں آج بنگلہ دیش والوں کو بھی قائد اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے ان کی کاوشوں سے ایک اسلامی ملک معرض وجود میں آیا اور دعا ہے اللہ سے کہ ہمیں اس مشن کو آگے لیکر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اس ملک میں ہر کسی کو مذہبی آزادی ہے اسی آزادی کے نظرئیے کو ذہن میں رکھ کر پاکستان کی بنیاد رکھی گئ تھی
انہوں نے کہا کہ قرآن کی جس آیت کی تلاوت کا شرف حاصل ہوا ایک تمہید میں پہلے پیش کرنا چاہتا ہوں ایک مقدمہ بنانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس دنیا کے معاملات کے اندر نشست وبرخاست کے اندر توجہ و عدم توجہ دلچسپی و عدم دلچسپی ساتھ ساتھ چلتی ہے بہت سارے چیزوں میں آپ کی دلچسپی ہے اور اس کے برعکس بہت سارے امور میں توجہ نہیں ہے یا عدم توجہی ہے جن چیزوں میں آپ کی دلچسپی ہے اس کامطلب ان چیزوں کو آپ اہمیت دیتے ہیں مثال کے طور پر بچے گیم کھیلتے ہیں جیسے کسی کو کرکٹ کسی کو والی بال کسی کو فٹبال میں دلچسپی ہے اور اس کے برعکس پڑھائ یا دیگر فلاحی کاموں میں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی یہ ایک مقدمہ ہے جو میں آپ تک پہنچانا چاہ رہا ہوں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آئیں یہ دیکھیں ہمیں دین میں کتنی دلچسپی ہے دین کے احکامات میں کتنی دلچسپی ہے تعلیمات اسلام میں کتنی دلچسپی ہے آخرت کی کتنی فکر ہے غریب و غرباء مساکین میں کتنی دلچسپی ہے بخدا وقت نہیں ہے آج آپ ان بزرگوں سے پوچھیں وہ بھی چاہتے تھے جوانی میں بہت کچھ کرنے کا مگر کہتے تھے ابھی بہت وقت ہے ابھی زرا دنیا کے مزے لےلیں آجائیں گے دین کی طرف ابھی بہت وقت ہے یقین جانیں سوچتے سوچتے دیکھایہ جوان بوڑھے ہوگئے وقت نکل چکا تھا اب دین کی طرف آنا چاہتے ہیں تو بڑھاپا آڑھے آرہاہے اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھوچکا ہے اب ضعیفی آڑھے آرہی ہےجوانی میں غیر ضروری چیزوں کی طرف ہماری دلچسپی ہوتی ہے ہم اصل عزت و مقام والی چیزوں میں دلچسپی نہیں لیتےقرآن تذکر دیتا ہے یاددھانی کرواتا ہے اے انسان تو کدھر کھو گیا ہے تو کن امور میں مشغول ہوگیا ہے قرآن اس نقصان دہ دلچسپی کی طرف ہمیں متوجہ کرتا ہے لیکن ہمیں قرآن سے ہی دلچسپی نہیں ہے تو ہم نے متوجہ کہاں ہونا ہے اگر قرآن سے دلچسپی ہوتی توہم قرآن کے فرامین کو سمجھتے مثال کےطور پر قرآن کہتا ہے اپنے رب کو بھول کر تمہاری دلچسپی شیطانی امور کیطرف چلی گئ ہے ظاہری بات ہےجب انسان کا ذہن ادھر جائے گا تو وہ شیطانی افعال ہی انجام دے گا انسان وہی کام کرتا ہے جہاں اس کی فکر جارہی ہوتی ہے جب دماغ شیطانی افکار کے تابع ہوتا ہے تو انسان بہک جاتا ہے جب کہ عالم ارواح میں خدا نے انسان سے عہد لیاتھا کہ شیطان کی بندگی اور پرستش نہیں کرنا اس کی طرف ااپنے افکار کو لیکر نہیں جاناکیونکہ فکر نے ہی تو انسان کو گمراہ کرنا ہوتا ہےانسان خود بخود کہیں نہیں جاتا ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اسی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے ہی تو آئے ہیں بت پرستی سے خود پرستی سے نکال کر خدا پرستی کیطرف لیجانے کے لئے تو انبیاء آئےہیں لوگوں کو یہ بتانے آئے کے تمہاری سوچ غلط ہے انداز فکر غلط ہے تمہارے عمل کا طریقہ غلط ہے فکرکو تبدیل کرنے سے انسان خود بخود تبدیل ہوجاتا ہے اسی لئے علامہ قبال کا یہ پر مغز شعر کہ
دنیا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نگاہ زلزلہ عالم افکار
یعنی انسان اگر راہ حق پر گامزن ہوجائے تو فکروں میں زلزلہ پیدا ہوگا سوچوں میں زلزلہ پیدا ہوگا جس سے کیا ہوگا ایک انسان کا وجود اور سمت تبدیل ہوجاتاہے ہے اس کے اعمال بدل جاتے ہیں اسی لئے قران بار بار کہہ رہاہے اے انسان تمہِیں میری عبادت کے لئے خلق کیا گیا ہے کیوں شیطان کی پرستش کرتے ہو شیطان کی عبادت بندگی کرتے ہویاد رکھنا جب ہمارے وجود کو خلق کیاجارہا تھا اس میں بندگی کا عنصر بھی خدا نےرکھ دیا تھالہذا انسان ہمیشہ اطاعت میں ہے خدا کی اطاعت میں ہے یا شیطان کی اطاعت میں ہے یا نفس عمارہ کی اطاعت میں ہےیہاں تک کہ جس کا کوئ دین نہیں ہے وہ بھی اطاعت میں زندگی گزار رہا ہے لہذا اللہ فرماتا ہے اےانسان یہ تیرا میرا وعدہ ہے تجھے انسان بنایا پھر زمین کو خلق کیا تیرے ساتھ یہ وعدہ ہوا ہے کہ تو شیطان کی پرستش نہیں کرے گا قرآن اسی بندگی کا تذکر دیتارہتا ہے سورہ یسین میں اسی کا ذکر ہے جس کو ہم ہر روز پڑھتے ہیں کبھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے اس کے بعد یہاں پر بات ختم نہیں ہوئ اللہ فرماتاہے شیطان تمہارا دشمن ہے آج ہم اپنے خود ساختہ دشمنوں سے بچتے ہیں۔
سید رضی نے کہا کہ جب لفظ دشمن ذہن میں آتا ہے تو ایک قاتل نقصان دینے والے لوٹنے والے حاسد کا عکس ذہن میں آتا ہے انسان فوری ہوشیار ہوجاتا ہے خدا کہہ رہا ہے شیطان تیرا دشمن ہے لیکن ہم متوجہ نہیں ہوتے ہم شیطان کے راستے پر چل رہے ہیں جیسے نعوذباللہ دشمن ہمارا خدا ہو اس قدر تیزی سے شیطان پرستی میں ہم مگن ہیں جیسے وہی خالق ہو اور قرآن سے ایسے بھاگ رہےہوتے ہِیں جیسے خدا ہمارا دشمن ہوجبکہ ہم نے عالم ارواح میں شیطان کی پرستش نہ کرنے کا وعدہ لیا تھا کیونکہ دشمن کا کام ہمیں رسوا کرنا ذلیل کرنا ہے پھر خدا فرماتا ہے میرے ہر حکم کی تعمیل کرو اگر کرو گے تو تم نجات کے راستے پر رہوگےبس خدا نے مخصوص کردیا عزت و شرف اسی کو ملے گا جو میرے راستے پر چلے گااور پھر آگے بیان فرماتا ہے تم سے پہلے کتنے لوگوں کو شیطان نے گمراہ کیا عبرت تمہارے سامنے ہے عقل نہیں ہے کیا تم سوچتے کیوں نہیں ابھی ابھی قوم لوط قوم صالح قوم عاد وثمود گزری ہے شیطان کے ہی توکارنامے تھے جس نے انہیں بہکا دیا کچھ نہیں ہوتا بے فکر رہو لوگوں کو سنہرے خواب دکھاتا رہا کچھ نہیں ہوتا کچھ نہیں ہوتا یہ کہہ کہہ کر شیطان نے ان کو برباد کردیا ہم بھی اپنی غلاظتوں اور کثافتوں کو جاری رکھنےکے لئے کچھ نہیں ہوتا کا ورد کرتے رہتے ہیں شیطان ایسےہی تو ورغلاتا ہے جوانوں کے دلوں میں شیطان زیادہ گھستا ہے جوانوں کو شادیوں میں رقص و شراب پر اکساتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شیطان کے بہکاوے میں آکر تاجر لالچ میں مصروف ہیں تجاوزات میں مصروف ہیں صبح 9 سے شام 9 تک ہزاروں لوگوں کے لئے مارکیٹ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے شیطان پرستی ہی تو کررہے ہیں قرآن کہتا ہے تمہیں عقل نہیں ہے کیوں ایسے کام کرتے ہو جس کا انجام تباہی ہےسزا تو ملنی چاہیے جب توجہ نہیں کریں گے آج دنیا کو سزا مل رہی ہے یہ جو ہم اپنے ہاتھوں سے کر رہے ہیں اس کی سزا ہمیں مل رہی ہے اتنی بڑی دنیا میں جینا مشکل ہوگیا ہے ہر طرف وباء بلائیں نازل ہورہی ہیں کہاں سے یہ آفتیں ہم پر آرہی ہیں کہاں سے یہ فتنے پھیل رہے ہیں ہم اس فتنے کے حصے دار ہیں یہ نہ سوچیں میں اور آپ اس میں شامل نہیں ہیں ہم ایک مصلح کے انتظار میں ہِیں ہم خود سے کچھ نہیں کررہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ جس طرح ایران اس وقت دنیا میں ایک مصلح کا کردار ادا کررہا ہے عالمی طاقتوں کے آگے ڈٹ گیا ہے امریکہ اسرائیل جیسے مفسدوں کے آگے ایران ڈٹ کر اصلاح کا پرچم لیکر تن تنہا کھڑا ہے ایران ان ظالموں سے کہہ رہا ہے بند کرو یہ بدمعاشی جینے دو غریبوں کو مظلوموں کو جینے دو امام زمان اصلاح کے لئے تو تشریف لارہے ہِیں جب خدا فساد کو پسند نہیں کرتا تو کیسے امام زمان مفسدوں کو پسند کریں گے ہمیں مصلح کا ساتھ دینا ہے ہم تو مفسدوں کا ساتھ دے رہےہیں خدا پر یقین رکھیں رزق خدا کےہاتھ میں ہے قرآن بار بار کہہ رہا ہے تم تذکر کرتے رہو ذکر کرتے رہو تم خدا کی طرف متوجہ رہو اللہ نہ کرے ایسا دن آئے قرآن سے ہماری دلچسپی ختم ہوجائے تو پھر خسارہ دنیا اور آخرت ہمارے مقدر میں لکھا جائے گا۔کیا ہوگیا تمہیں کیوں قرآن میں تدبر نہیں کرتے کیوں غور نہیں کرتے کیا دلوں پر تالے پڑھ گئے ہیں سچ بتاو کیا کبھی پڑھنے کے ساتھ تدبر و تفکر کرتے ہو واقعی ہمارے دلوں پر تالے پڑھ چکے ہیں ہماری دلچسپی ختم ہوچکی ہے اور جن چیزوں کی طرف ہماری دلچسپی زیادہ ہے اس کامطلب وہ چیز ہمارے لِئے زیادہ اہمیت رکھتی ہے
امام جماعت مسجد کشمیریاں لاہور نے کہا کہ اسرائیل گریٹر اسرائیل کے قیام کی خاطرآگے بڑھتا جارہا ہے اب تک عرب امارات میں سیروتفریح کے بہانے پچاس ہزار یہودی داخل ہوچکےہیں یہ تعداد بڑھتی جائے گی یہ اپنے منصوبےکی تکمیل کررہےہیں اب دوسرا مرحلہ شروع ہوچکا ہے سعودی عرب اور امارات کے تعلیمی نصاب میں تبدیلی کررہےہیں یاد رکھیں نصاب کابچوں کے اذہان پر بہت اثر ہوتا ہے دیکھ لیں اسرائیل کے منصوطے کسی تیزی سے کامیاب ہورہے ہیں پاکستان کو بھی کہا جارہا ہے پریشر ڈالا جارہا ہے ہمیں تسلیم کرو ہمیں یقین ہے پاکستان کی حکومت اور غیور اہل تشیع حضرات اس منصوبے کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دیں گے اگر ایسا سوچا بھی ہم سخت مزاحمت کریں گے۔