تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ہمارے ساتویں امام ہیں ۔ آپؑ کے والد ماجد معلم بشریت، مربی انسانیت صادق آل محمد ؑ قرآن ناطق حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام ہیں اور آپ کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا ہیں کہ جن کے بارے میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘ حمیدہ کنیزوں کی سردار ہیں، ہر برائی اور گندگی سے پاک ہیں جیسے شمس طلا (گولڈ بلین)، ملائکہ ہمیشہ ان کی حفاظت کرتے تھے یہاں تک کہ کرامت خدا ان کا نصیب ہوئی۔’’ اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘حمیدہ گندگی سے پاک ہیں جیسے شمس طلا(گولڈ بلین )۔ ملائکہ انکی حفاظت کرتے یہاں تک کہ وہ مجھ تک پہنچ گئیں، یہ اللہ کی کرامت ہے ہم پر اور ہمارے بعد آنے والے ائمہ ؑ پر۔ ’’
روایت میں ہے کہ جب جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں پہنچی تو امام ؑ نے ان سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا ‘‘حمیدہ’’ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘تم دنیا میں حمیدہ اور آخرت میں محمودہ ہو’’
مذکورہ روایات سے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی والدہ ماجدہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کی عظمت و اضح ہوتی ہے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا نام موسیٰؑ، کنیت ابوابراہیم، ابوالحسن اول اور ابو علی ہے اور آپؑ کے القاب کاظم (غصہ کو پی جانے والا)، عبد صالح اور باب الحوائج زیادہ مشہور ہیں ۔ اہل مدینہ آپؑ کو زین المجتہدین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
سن ۱۲۸ یا ۱۲۹ ہجری میں فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد جب امام جعفرصادق علیہ السلام اپنی شریکہ حیات جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کے ہمراہ مکہ مکرمہ سے واپس مدینہ تشریف لا رہے تھے تو مقام ابواء پر امام عالی مقام کے کاروان نے استراحت کے لئے قیام کیا ۔ یہ ابواء وہی مقام ہے جہاں رسول اللہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی والدہ ماجدہ صدف رسالت حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی قبر مبارک ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے اصحاب کے ساتھ خیمہ میں غذا نوش فرما رہے تھے کہ خادم نے اطلا ع دی کہ جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کی طبیعت ناساز ہے ، یہ سننا تھا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فوراً اٹھے اور جناب حمیدہ سلام اللہ علیہا کے خیمے میں گئے ۔ آپؑ کے وہاں پہونچتے ہی امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد امام علیہ السلام واپس اپنے اصحاب کے پاس شاد و خوشحال تشریف لائے تو سب آپؑ کے احترام میں کھڑے ہوگئے اور احوال پرسی کی تو فرمایا: ‘‘حمیدہ (سلام اللہ علیہا ) بخیر و عافیت ہیں ۔ اللہ نے مجھے ایک بیٹا دیا ہے کہ دنیا میں اس سے بہتر کوئی نہیں ہے۔ ’’
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اصحاب سے فرمایا : ‘‘حمیدہ ؑ نے مجھے کچھ باتیں بتائیں وہ سمجھ رہی تھیں کہ مجھے نہیں معلوم ’’ حاضرین نے پوچھا مولا واقعہ کیا ہے تو امامؑ نے فرمایا:‘‘جیسے ہی میرے نور نظر موسیٰؑ دنیا میں آئے، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھے اور سر آسمان کی جانب بلند کر کے اللہ کی تسبیح، تہلیل و تحمید فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجا۔ ’’
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے حمیدہ ؑسے کہا کہ‘‘ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، امیرالمومنین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی روش ہے کہ دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھتے ہیں اور سر آسمان کی جانب بلند کر کے اللہ کی تسبیح، تہلیل و تحمید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اور اللہ کی وحدانیت کا اعتراف و اقرار اور اسکی گواہی دیتے ہیں۔ جیسے ہی یہ جملے انکی زبان سے جاری ہوتے ہیں تو اللہ انکو اولین و آخرین کا علم عطا کر دیتا ہے اور شب قدر میں ملائکہ انکی زیارت کے لئے آتے ہیں۔ ’’
ابو بصیر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے فرزند امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی ولادت با سعادت پر تین دن تک ولیمہ کیا اور ہم سب نے کھانا کھایا۔
اگرچہ ۷؍ صفر آپؑ کی تاریخ ولادت مشہور ہے لیکن چونکہ یہ روایت اکثر بلکہ تقریباً تمام کتب میں مرقوم ہے کہ سفر حج سے واپسی پر مقام ابواء پر آپؑ کی ولادت ہوئی ہے لہذا بعض محققین نے آپؑ کی تاریخ ولادت ۲۰؍ ذی الحجہ بیان کی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے صحابی یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ایک دن میں اپنے مولا و آقا امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کے نزدیک گہوارہ میں آپ کے فرزند امام موسی کاظم علیہ السلام تھے۔ میں نے آپؑ کو سلام کیا آپؑ نے جواب دیا اور گہوارے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اپنے مولا و آقا کو سلام کرو۔ میں حسب حکم گہوارے کے نزدیک گیا اور امام موسی کاظم علیہ السلام کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ آپؑ نے جواب سلام عطا کیا اور فرمایا "یعقوب اللہ نے کل تمہیں ایک بیٹی عطا فرمائی ہے تم نے اس کا جو نام رکھا ہے بدل دو کیوں کہ اللہ کو وہ نام پسند نہیں۔" جب میں واپس ہونے لگا تو امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا اپنے مولا کے حکم کی تعمیل کرنا اسی میں دنیا و آخرت کی سعادت ہے۔
یعقوب سراج کا بیان ہے کہ ہم نے امام موسی کاظم علیہ السلام کے حکم کے مطابق اپنی بیٹی کا نام بدل دیا۔
(اصول کافى : ج 1، ص 310، ح 11، إ ثبات الهداة : ج 3، ص 158، ح 12.)
جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام کی حدیث ہے کہ ‘‘ہم اہلبیتؑ کی امامت کی دلیل ہمارا علم ہے۔’’ یہی علم امامت تھا کہ جس نے ہر دور کے ظالم و جابر اور غاصب کو آپؑ حضرات کے سامنے جھکنے پر مجبور کیا ۔ اگر چہ دعویٰ ‘‘سلونی’’ صرف امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا لیکن اس دعویٰ کی دلیل ہمارے ہر معصوم امام نے دی۔ کیوں کہ ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کا علم لدنی ہے ، وہ اللہ کی تمام مخلوقات پر اس کی حجت ہیں ، لہذا اگرچہ ظاہرا ً انکی زبان عربی تھی لیکن وہ تمام مخلوقات کی زبان سے واقف تھے۔ وہ چاہے گہوارے میں ہوں یا ایام پیری میں ، سن وسال یا حالات سے ان کا علم و یقین متاثر نہیں ہوتا تھا۔ جیسا کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا: ‘‘اگر حجابات ہٹا بھی دئیے جائیں تو میرے یقین میں اضافہ نہیں ہو گا۔ ’’ جس طرح منزل علم میں دعویٰ صرف امیرالمومنین علیہ السلام نے کیا لیکن دلیل بارہ اماموں نے دی اسی طرح مرحلہ یقین میں بھی دعویٰ صرف مولا علی علیہ السلام نے کیا لیکن دلیل ہمارے بارہ اماموں نے دی۔ یہ مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت ہے جسکی متعدد روایتیں تائید کرتی ہیں کہ جب آپ حضرات شکم مادر میں تھے تو اس وقت بھی آپؑ کے علم و کرامت کا فیض جاری تھا اور مادران گرامی کے انیس و یاور رہے اور بعد شہادت بھی فیض علم و کرامت عام ہے۔
اگر ہم سرکار باب الحوائج حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی علمی سیرت کو ملاحظہ کریں تو آپ ؑ نے گہوارے سے شہادت تک وہ نمونے پیش کئے جو عام انسان کے لئے نہ فقط قابل تصور نہیں بلکہ انہیں پڑھ کر انسان حیرت و تعجب میں پڑ جاتا ہے۔ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے کمسنی میں امام ابوحنیفہ نے متعدد بار علمی مناظرے کئے اور ہر بار انہیں امام عالی مقام کی علمی مرتبے کا اقرا ر کرنا پڑا۔ اسی طرح عباسی خلفاء، یہود ونصاریٰ اور منکرین خدا سے مناطرے کئے جن میں مقابل کو ہمیشہ شکست کا سامنا ہی کرنا پڑا۔ کتب تاریخ میں کتنے واقعات ہیں کہ جن میں غیر عربوں نے جب عربی زبان میں سوال کیا تو امامؑ نے انہیں انکی مادری زبان میں جواب دیا ، بلکہ بعض اوقات ان کے اصل نام و نسب سے بھی آگاہ کیا جسے سن کر وہ تصویر حیرت بن گئے۔
جس طرح آپؑ کی علمی شخصیت بے نظیر تھی اسی طرح آپ ؑ کی اخلاقی سیرت بھی لا جواب تھی۔ آپؑ کی اخلاقی سیرت آپؑ کے مشہور لقب ‘‘کاظم’’ یعنی غصہ کو پی جانے والا، سے ہی واضح ہے، آپ کا لطف و کرم مخالفین کے بھی شامل حال رہتا تھا، خلیفہ دوم کی نسل کا ایک شخص جو اکثر آپؑ کی برائی کرتا تھا آپؑ نے اس پر احسان کیا ۔ رات کی تاریکی میں فقراء و مساکین کی امداد فرماتے۔ بشر حافی جو پہلے لہو و لعب اور غنا میں تباہ تھے جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے خود انکی کنیز کے ذریعہ انکی ہدایت کی تو وہ توبہ کر کے عابد و زاہد بن گئے۔ لیکن افسوس دور حاضر میں کچھ نام نہاد مدّاح جو اسیر دنیا ہیں اور ان کا مقصد صرف دنیا ہے وہ میوزک پر نوحے اور منقبتیں گا رہے ہیں ۔ میرا ان تمام اسیرانِ دنیا سے چاہے وہ ہمارے ملک کے ہوں یا پڑوسی ملک سے ، سوال ہے کیا تمہیں مدح اہلبیت اطہار علیہم السلام کے سبب عزت، دولت ، شہرت نہیں ملی ، تمہیں حلال سے کیا نہیں ملا جو تم حرام میں گئے اور وادی ظلمت کے مسافر ہو گئے۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا دورہ امامت سن ۱۴۸ ہجری میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی شہادت سے شروع ہوا ، ماحول انتہائی پر آشوب تھا، کچھ کمزور عقیدہ والے آپؑ کے مرحوم بھائی اسماعیل کی امامت کے قائل ہو گئے جب کہ انکی وفات والد ماجد کی زندگی میں ہی ہو گئی تھی اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے انکی وفات صراحت و وضاحت سے بیان بھی کی تھی، دوسری جانب آپؑ کے ایک بھائی عبداللہ افطح نے امامت کا دعویٰ کر دیا ، آپؑ نے آگ روشن کرائی اور جب شعلے بلند ہونے لگے تو انکو بلایا اور کہا کہ اگر آپ اپنے دعویٰ میں سچّے ہیں کہ آپ امام ہیں تو آگ میں جائیں ، انہوں نے کہا کہ پہلے آپؑ جائیں تو فخر ابراہیم امام موسیٰ کاظم علیہ السلم آگ میں گئے اور تھوڑی دیر بعد راکھ جھاڑتے ہوئے نکل آئے ، جسم تو دور لباس بھی نہیں جلا تھا یہ دیکھتے ہی عبداللہ افطح نے فرار کو قرار پر ترجیح دی لیکن اپنے دعویٰ سے پیچھے نہیں ہٹے اور کچھ کمزور عقیدے والوں کو گمراہ کر تے رہے۔
عباسی حاکم نے آپؑ کو تقریباً چودہ برس سخت ترین قید میں رکھا اور یہ اسیری آپؑ کی شہادت ۲۵؍ رجب سن ۱۸۳ ہجری پر تمام ہوئی ۔ امام علیہ السلام نے ایسے سخت ترین حالات میں کہ جب آپؑ قید خانہ میں تھے، لوگوں سے ملاقات نہیں کر سکتے تھے تو مومنین کی ہدایت کے لئے مختلف علاقوں میں وکیل معین کر کے نظام وکالت کو قائم کیا تا کہ جب حجت خدا پردہ غیبت میں ہو تو مومنین خود کو لا وارث نہ سمجھیں بلکہ وکلاء اور نمایندگان امام سے ہدایت حاصل کرتے رہیں۔ آپؑ نے علی بن یقطین کو اس شرط پر عباسی حکومت میں وزارت قبول کرنے کی اجازت دی کہ وہ مومنین کو فائدہ پہنچائیں اور انہیں نقصان سے بچائیں، و گرنہ آپؑ نے صفوان جمّال کو واضح طور پر شغل بدلنے اور اونٹ بیچنے کا حکم دیا تا کہ کسی مومن کے دل میں کسی ظالم کی زندگی کی معمولی سی خواہش بھی نہ آئے۔
جناب بہلول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے سچے شیعہ تھے ، وہ اپنے دور کے اعلم اور فقیہ اعظم تھے جب مسجد میں درس دیتے تو مسجد علماء ، فقہاء اور طلاب سے بھر جاتی ، ہر ایک انکا احترام کرتا تھا لیکن جب ہارون نے انہیں منصب قضاوت پر مجبور کیا اور امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے منصب قضاوت کے قبول کرنے سے منع کیا تو انہوں نے اپنے ایمان اور جان کو بچانے کے لئے دیوانگی اختیار کر لی کہ ایک دور وہ تھا کہ بڑے بڑے عالم و فقیہ ہونے کے سبب احترام کرتے تھے لیکن اب گلی کے بچّے مذاق اڑانے لگے ۔ جناب بہلول رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی شخصیت، اپنی عزت ، اپنا وقار تو قربان کر دیا لیکن حجت خدا امام معصوم کی نافرمانی نہیں کی۔ قرآن کریم نے ہمیں سوچنے، سمجھنے اور فکر کرنے کی دعوت دی ہے لہذا ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہئیے۔