حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی سنی عالم دین عبدالسلام کریمی نے گزشتہ روز صوبۂ گرگان میں ’’رہبر انقلابِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے امریکی انسانی حقوق‘‘ کے عنوان سے منعقدہ پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کے دوران، امریکی حقوقِ بشر کے جھوٹے دعوؤں کو کثرت سے پڑھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ کے عظیم واقعات کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔ مختلف ممالک میں، مختلف ناموں سے ظلم ہوتا رہا ہے، کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی انسانی حقوق کے نام پر، لہذا ہمیں لوگوں کو ظالم کے ظلم سے آشنا کرانے کی ضرورت ہے، تاکہ لوگ ظلم اور ظالم سے نفرت کرنے لگیں اور ظلم کے محاذ کے سپاہی نا بنیں۔
سنی عالم دین کریمی نے ’’رہبر انقلابِ اسلامی کے نقطۂ نظر سے امریکی انسانی حقوق‘‘ کے عنوان سے منعقدہ پانچویں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انقلابِ اسلامی ایران کو دنیا میں حقوق کے حصول اور ظلم کے خلاف جنگ کا عملی نمونہ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ قرآن کریم انسانی فطرت کے عین مطابق نازل ہوا ہے اور یہ کسی خاص زمان اور مقام پر منحصر نہیں، لہٰذا جب تک دنیا میں ظلم و ستم باقی ہے، مظلوم باقی ہیں، ہمیں انسانی حقوق کے بارے میں گفتگو کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو دشمن کی پہچان کرانا ضروری ہے، تاکہ وہ ان چھوٹے دعویداروں کے جھانسے میں نا آجائیں۔
ایرانی سنی عالم دین نے عدل و انصاف کے نفاذ کو انبیائے الٰہی علیہم السلام کی بعثت کا مقصد قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ عدالت؛ دوسروں کے حقوق کو پامال نہ کرنے کے معنی میں ہے۔ عدالت یعنی دوسرے ممالک کے حکمرانوں کے قتل عام سے پرہیز، کیمیکل بمباری کی عدم حمایت، ایئربیس طیارے پر میزائل حملوں سے گریز، فلسطین کے خلاف جارحانہ سلوک اور ان کے قتل عام کی حمایت نہ کرنا اور افغانستان، ویتنام، یمن، فلسطین اور پاکستان وغیرہ پر ہونے والے ظلم و ستم، قتل و غارتگری اور غاصبانہ قبضہ نہ کرنا ہے۔
مولوی کریمی نے مزید کہا کہ انسان کو دوسرے انسان پر حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ حق صرف خدا کا ہے۔ پیغمبر اور اولیاء اللہ علیہم السلام بھی احکام الٰہی کے نافذ کرنے والے ہیں۔ آج اگر ہم رہبر کے تابع ہیں تو یہ ان کے عدل و انصاف اور حق طلبی کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا ہم رہبرِ انقلاب اسلامی پر اپنی جانوں کو قربان کرنے کیلئے حاضر ہیں، کیونکہ آپ حق کا عملی مظہر ہیں۔
انہوں نے امریکہ کی غیر انسانی پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اگر افراتفری اور علیحدگی پسندی اچھی ہے تو کیوں تم اپنے ملکوں سے شروع نہیں کرتے؟ کیوں فرانس اور القدس کی قابض صہیونی حکومت کے معاملات میں مداخلت کو جائز شمار نہیں کرتے، جبکہ اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کو اپنا ناقابل تلافی حق سمجھتے ہو؟
ایرانی سنی عالم دین کریمی نے اسلام کو حق و باطل کا معیار قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج ہم سب اپنے اپنے منصب کے مطابق ذمہ دار ہیں۔ آج ہر وہ عمل جس سے امریکہ اور صہیونی حکومت خوش ہو، وہ باطل عمل ہے اور ہر وہ عمل جس سے امریکہ اور صہیونی حکومتیں ناراض ہوں وہ اچھا عمل ہے۔
دینی و مذہبی اقلیتی امور میں ایرانی صدر کے مشیر نے بعثت انبیاء علیہم السلام کو عالمی نظام عدالت کے قیام کا ہدف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم مشکلات کے منکر نہیں ہیں، لیکن ہمارا راستہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے۔ چالیس سال بعد بھی ہم انہی انقلابی نعروں کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن ہیں اور اس کیلئے ہماری جانیں بھی حاضر ہیں۔
مولوی کریمی نے اسلامی جمہوریہ ایران کو پوری دنیا میں عدل و انصاف کا مظہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نہ خود ظلم کرتا ہے اور نہ ہی کسی کے ظلم کو قبول کرتا ہے اور پوری دنیا میں عدالت کے اس نمونے کو پیش کرنا چاہتا ہے۔