حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، "سالوان مومیکا" جس نے عیدالاضحی کے دن قرآن مجید کو نذر آتش کیا تھا، اس نے اعلان کیا کہ سویڈش پولیس نے اس کی حمایت کرنا بند کر دی ہے اور اسے مسلمانوں کا آسان شکار بنا دیا ہے۔
اس گستاخ شخص نے اپنے ٹک ٹاک اکاؤنٹ پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا: "سویڈش پولیس نے میری رہائی کے بدلے ایک معاملے کی پیشکش کی جسے میں نے ٹھکرا دیا، اس کے بعد پولیس نے مجھ سے کہا کہ میں مسلمانوں پر تنقید کرنا چھوڑ دوں، اور ان کے خلاف مظاہرے کرنا بند کردوں۔ میں نے سنا ہے کہ سویڈش امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے میرا سویڈن میں پناہ لینے کا کیس کھولنے کی دھمکی دی ہے اور مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
مومیکا نے مزید کہا: آج میں اپنی زندگی میں بہت خطرناک صورتحال میں ہوں؛ میں کسی بھی لمحے مارا جا سکتا ہوں اور مجھ پر کبھی بھی حملہ ہو سکتا ہے، لہذا، میں سویڈش پولیس کو اپنی حفاظت اور زندگی کا ذمہ دار سمجھتا ہوں؛ کیونکہ انہوں نے میرے لئے اپنے ملک کا قانون توڑنے کی کوشش کی ہے۔
اس نے مزید اعتراف کرتے ہوئے کہا: "سویڈش پولیس نے میری حمایت اور مدد کے بدلے ایک غیر قانونی دستاویز پر دستخط کرنے کو کہا جس پر میں نے دستخط نہیں کیے، اور اب میں کہیں غیر محفوظ جگہ پر چھپا ہوا ہوں، میں کبھی بھی کہیں بھی حملے کا شکار ہو سکتاہوں؛ مجھے اسلامی ممالک اور مسلمانوں کی طرف سے دھمکیاں دی گئیں جسے سویڈش حکام بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔
واضح رہے کہ بدھ (28 جون) کو عراقی نژاد 37 سالہ سویڈش شہری مومیکا نے عید الاضحی کے پہلے اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے سامنے قرآن پاک کو نذر آتش کر دیا تھا، اس بے حرمتی پر عالمی پیمانے پر ردعمل سامنے آیا اور لوگوں نے اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔