بدھ 30 جولائی 2025 - 07:30
میڈیا کی بے راہ روی اور مذہبی عظمتوں کی توہین؛ ایک مؤمنانہ صدا برائے صداقت

حوزہ/دورِ جدید میں جہاں ذرائع ابلاغ نے خبروں کی ترسیل کو برق رفتاری عطا کی ہے، وہیں کچھ طالع آزما عناصر نے اس عظیم نعمت کو جھوٹ، فتنہ انگیزی اور مذہبی منافرت کا آلہ بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں ہندوستانی ذرائع ابلاغ کی اسی گمراہ کن روش نے نہ صرف سچائی کو داغ دار کیا، بلکہ ملتِ جعفریہ کے قلب و احساسات کو بھی گہرے زخم دئیے ہیں۔

تحریر: مولانا عقیل رضا ترابی

حوزہ نیوز ایجنسی| دورِ جدید میں جہاں ذرائع ابلاغ نے خبروں کی ترسیل کو برق رفتاری عطا کی ہے، وہیں کچھ طالع آزما عناصر نے اس عظیم نعمت کو جھوٹ، فتنہ انگیزی اور مذہبی منافرت کا آلہ بنا دیا ہے۔ حالیہ دنوں ہندوستانی ذرائع ابلاغ کی اسی گمراہ کن روش نے نہ صرف سچائی کو داغ دار کیا، بلکہ ملتِ جعفریہ کے قلب و احساسات کو بھی گہرے زخم دئیے ہیں۔

اس افسوس ناک صورتِ حال کا سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ امتِ تشیع کے جلیل القدر مرجع تقلید، آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دامت ظلہ، جو روحانیت، زہد، قیادت اور حکمت کا حسین امتزاج ہیں، اُن کے خلاف غیر ذمہ دار میڈیا اداروں نے ایسے الزامات عائد کیے جو عقل و اخلاق دونوں سے عاری ہیں۔ یہ عمل محض ایک فرد کی توہین نہیں، بلکہ پوری ملتِ تشیع کی روحانی بنیادوں کو جھنجھوڑنے کی دانستہ کوشش ہے۔

یہ سطور ایک خاموش تماشائی کے طور پر نہیں، بلکہ ایک صاحبِ ایمان کی حیثیت سے لکھی جا رہی ہیں۔ یہ آواز اُن تمام مخلصین کی نمائندہ ہے جو دین، شریعت اور قیادت کی عصمت پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وطن عزیز میں باہمی احترام، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کے چراغ فروزاں رہیں۔

میڈیا کی جانب سے جو الزامات گھڑے گئے، ان میں سچائی کا شائبہ تک موجود نہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای فقط ایران کے سیاسی رہنما نہیں، بلکہ کروڑوں مسلمانوں کے لئے روحانی مرکز و منبع ہیں۔ ان کی شان میں گستاخی، اُن کے پیروکاروں کے لئے اذیت اور رنج و غم کا باعث ہے، اور یہ ایک ایسا قدم ہے جو نہ صرف دلوں کو زخمی کرتا ہے بلکہ ملک کی مذہبی فضا کو بھی آلودہ کرتا ہے۔

افسوس کہ ایران و اسرائیل کے تنازعے کے پس منظر میں میڈیا نے جو فرضی مناظر تراشے، وہ محض بیرونی ایجنسیوں کے ایما پر داخلی فساد کا بیج بونا ہے۔ "انڈیا ٹی وی" اور "ہندوستان ٹائمز" جیسے اداروں نے جو شرمناک اور اخلاق سے گرے ہوئے الزامات نشر کیے، وہ صحافت نہیں بلکہ خباثت کا نمونہ ہیں۔

بطور ایک حساس اور دیانتدار شہری، یہ مطالبہ نہایت اخلاص سے پیش کیا جا رہا ہے کہ حکومتِ ہند اس معاملے میں فوری اور مؤثر قدم اُٹھائے۔ آئینِ ہند کی روشنی میں ایسے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے، اور میڈیا کو پابند کیا جائے کہ وہ مذہبی ہستیوں کے حوالے سے ہرزہ سرائی سے باز رہیں۔ ضروری ہے کہ ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب ہو جو صحافت کو آزادی کے پردے میں گمراہی کا راستہ اختیار کرنے سے روک سکے۔

اگر میڈیا اسی طرح مغربی و صہیونی ایجنسیوں کے جھوٹ کو بغیر تحقیق و تصدیق کے عوام کے سامنے پیش کرتا رہا تو اس سے نہ صرف ملک کی اخلاقی ساکھ مجروح ہوگی بلکہ مذہبی مکالمے اور وحدت کا قیمتی سرمایہ بھی داؤ پر لگ جائے گا۔

آخر میں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ دینی شخصیات کی توہین کسی بھی مہذب، جمہوری اور باشعور معاشرے کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ ملک کے ذمہ داران پر لازم ہے کہ وہ ایسے عناصر کی سرکوبی کریں جو قوم کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔ صحافت اگر امانت ہے تو اس کی حرمت بھی قائم رہنی چاہیے — اور یہی حرمت آئندہ نسلوں کے لیے بہتر کل کی ضمانت بن سکتی ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha