تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | جدھر نظر اٹھائیں ظلم ہی ظلم نظر آتا ہے۔ کہیں گولی، کہیں میزائیل، کہیں بم ، کہیں قید و بند ، کہیں پیاس سے تڑپتی انسانیت، کہیں بھوک سے تڑپتے بچے، کہیں یتیموں کے آنسو تو کہیں بیواؤں کی فریاد، کہیں جسم و بدن پر ستم تو کہیں فکر و روح پر غلبہ۔ ہر جانب ظلم ہی ظلم ہے۔ جدھر دیکھیں ظلم کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہے۔
75 برسوں سے قبلہ اول کے مجاور مظلوم فلسطینی ان یہودیوں کے ظلم کا شکار ہیں جنکو انہوں نے رحم کھا کر پناہ دی تھی، پناہ دیتے وقت فلسطینی یہ بھول گئے تھے کہ یہ یہودی جس کلیم الہی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کلمہ پڑھتے ہیں جب یہ ان کے نہ ہوئے تو فلسطینیوں کے کیا ہوں گے، جس نبی ؑ نے ان کو ذلت و رسوائی سے نکال کر عزت و احترام بخشا تھا جب انکی کی نافرمانی میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی تو ان سے کسی خیر کی امید عبث ہے۔ جن سانپوں کو پالا تھا وہی آج ڈَس رہے ہیں ۔
1948 میں یہودی دین کے نام پر سرزمین فلسطین پر ایک ملک بنا جسے اسرائیل کہتے ہیں اور اس سے ایک سال قبل 1947 میں مسلمانوں کے نام پر پاکستان بنا ، دونوں جگہ کے حالات ایک جیسے نظر آتے ہیں ۔ فلسطین کے سنّی مسلمانوں نے صیہونیوں پر رحم کھایا اور آج انہیں صیہونیوں کے ظلم کےسبب خود رحم کے طلبگار ہیں۔ پاکستان کی تعمیر میں جہاں بانیٔ پاکستان کاعمل تھا وہیں راجہ محمود آباد کی دولت تھی، دونوں ہی شیعہ تھے لیکن آج اسی پاکستان میں شیعہ ہی ظلم کا شکار ہیں ۔ کبھی کراچی کی زمین شیعوں کے خون سے رنگین کی جاتی ہے تو کبھی کوئٹہ میں شیعہ مسجد میں بم دھماکہ ہوتا ہے اور ہزاروں شیعہ شہید اور زخمی ہوتے ہیں تو کبھی زائرین کی بس مسافروں سمیت جلا دی جاتی ہے۔ کبھی ڈیرہ اسماعیل خان میں شیعوں کے خون سے ہولی کھیلی جاتی ہے تو کبھی کسی اور علاقہ میں شیعوں کی ٹارکٹ کلنگ ہوتی ہے۔ پارہ چنار میں تو ظلم کی ساری حدیں ہی پار ہو گئیں ۔
فلسطین میں سنّی مسلمانوں کو صیہونی قتل کر رہے ہیں ، پارہ چنار میں صیہونی زادے نام نہاد مسلمان شیعوں کو قتل کر رہے ہیں ، فلسطین میں چونکہ مملکت کے باہر سے حملے ہورہے ہیں اس لئے اس غیر قانونی حملہ کو غیر قانونی سمجھا جا رہا ہے اور اس کی ہر ایک مذمت بھی کر رہا ہے لیکن پارہ چنار میں اموی و عباسی پیروکار حکومت کی مکمل حمایت سے شیعہ قتل ہو رہے ہیں اور اس قتل و خونریزی کے لئے افغانستان سے کرایہ کے طالبانی بھی بلائے جاتے ہیں لہذا وہ قانون کے دائرے میں ہے، نتیجہ میں دنیا پارہ چنار میں ہو رہے مظالم کی جانب متوجہ نہیں ہے۔
افغانستان میں بھی برسوں سے ظلم کا سلسلہ جاری ہے ، طالبان و القاعدہ کے اقتدار میں انسانیت تڑپ رہی ہے، نہ جانے اب تک کتنے افغانی اپنے ملک سے فرار کر کے دوسرے ملک میں پناہ گزیں ہیں ۔ لیکن افسوس مملکت خدا داد کا نعرہ لگانے والی پاکستانی حکومت نے پاکستان میں پناہ گزیں افغانیوں کو انتہائی بے رحمی سے نکال باہر کر دیا، پاکستانی پولیس نے ان بےچاروں کی ضروریات زندگی کے سامان بھی چھین لئے۔
چین میں اویغور مسلمان چینی حکام کے تشدد کا نشانہ ہیں ۔ گھروں کے بجائے کیمپوں میں زندگی بسر رہے ہیں ، کتنے اویغور مسلمان جلا وطن ہیں ۔
برما میں بھی ظلم کا سلسلہ جاری ہے ، جو برما میں ہیں وہ ظلم کا شکار ہیں اور جو برما میں نہیں ہیں وہ یا تو کسی ملک کے پناہ گزیں کیمپ میں ہیں یا کشتی میں سوار حسرت سے ساحل کی جستجو کر ہے ہیں کہ آخر کوئی ملک اجازت دے تو انکا سفر ختم ہو۔
سو سال سے حرمین شریفین اور حجاز پر قابض خائن نجدیوں کا ظلم اپنی مثال آپ ہے، حرمین شریفین میں بنام توحید جنت البقیع اور جنت المعلیٰ جیسے علامات توحید منہدم کر دئیے، قطیف میں آئے دن ظلم کا سلسلہ جاری ہے۔ شیخ باقر النمر رحمۃ اللّٰہ علیہ جیسے نہ جانے کتنے بے گناہ اب تک شہید ہو گئے۔
بحرین میں برسوں سے آل خلیفہ کا ظلم جاری ہے، یمن کی بھی صورت حال مذکورہ ممالک سے مختلف نہیں ۔
شام میں داعش کے باقی ماندہ دہشت گرد دہشت گردی کے کسی موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
جدھر نظر اٹھائیں ظلم ہی ظلم نظر آے گا۔ کہیں اسلام دشمن طاقتوں کے جرائم ہیں تو کہیں نام نہاد اسلامی حکام کی خیانتیں ہیں ۔
لیکن افسوس آج بھی عالم اسلام آپس میں بر سر پیکار ہے، آخر مسلمان کب سوچیں گے؟ کب سمجھیں گے؟ کیا ان اسلامی ممالک پر قابض توحید کا نعرہ لگانے والے بہروپیوں کو نہیں سمجھیں گے کہ افغانستان، بحرین، یمن ، پارہ چنار ، قطیف میں بنام اسلام و جہاد بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے آل سعود، آل خلیفہ، القاعدہ نے اب تک قبلہ اول اور فلسطینیوں کے لئے کیا کیا ؟
ان بہروپیوں نے صرف بیان دیا تا کہ ان کو کوئی اسلام مخالف بھی نہ کہے اور اسلام و انسانیت دشمنی کا دامن بھی ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ محرم کا چاند دیکھتے ہی ہر سال جو مفتی اپنے ترکش سے زنگ آلود ، گھسے پٹے فتووں کے تیر چلاتے ہیں وہ فلسطین کے مسئلہ میں گونگے نظر آتے ہیں ۔
شام میں جہاد النکاح کرنے والے زانی نہ جانے کہاں چھپے ہیں کہ اب تک فلسطین کے لئے کچھ نہ بولے ۔
برادران اسلام کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ نہ مسلمان حکمراں آپ کے ہیں اور نہ ہی وہ درباری مفتی آپ کے ہیں۔
خدایا ! ہم سب تیرے ہی بندے ہیں، تو ہی ہمارا خالق ہے، تو ہی ہمارا رازق ہے ، خلقت، ہدایت، قدرت ، عزت سب تیرے اختیار میں ہے۔ اپنے بندوں پر رحم فرما۔