تحریر: اشرف سراج گلتری
حوزہ نیوز ایجنسی| پاکستان میں اردوغان کو امت اسلام کا ہیرو سمجھا جاتا ہے، اس کے برعکس عرب ممالک کے عوام اور حکمران اردوغان کو قابلِ اعتبار نہیں سمجھتے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عرب ممالک مخصوصاً فلسطینی عوام یہ جان چکے ہیں کہ اردوغان، امریکہ اور اسرائیل کے چھتر تلے بیٹھ کر پالیسیاں بناتا ہے۔
عالمی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو اردوغان نے کبھی بھی امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے خلاف کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا ہے۔
جہاں پر بھی امریکہ اور اسرائیل کو متشدد گروہوں کی ضرورت پڑی ہے اردوغان نے ہی اس کمی کو پورا کر دیا ہے۔
داعش کو بنانے سے لے کر انھیں پناہ دینے تک کی ذمہ داری اردوغان نے ہی لی ہوئی ہے۔
اسرائیل اور غزہ کی جنگ میں اردوغان نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بڑھا دیا، بعض عرب چینل اور صحافیوں کے بقول: اردوغان کی فوج لگ بھگ چار ہزار کی تعداد میں اسرائیل کی حفاظت پر مامور تھی۔ایک طرف اردوغان اسرائیل کے خلاف تقریریں کرتا ہے دوسری طرف کنٹینرز پہ کنٹینرز اسرائیل کی طرف بھیجتا رہا ہے۔
ترکیہ کی عوام نے جب اس کے خلاف احتجاج کیا تو ان پر نہ صرف شیلنگ کی گئی حتی گولیاں تک چلائی گئیں۔
اسرائیل نے جب حزب اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور جنگ بندی کا اعلان کردیا ہےتو اسرائیل نے اردوغان کے ذریعے دوسرا محاذ کھول دیاہے۔
جونہی جنگ بندی کی خبر چلتی ہے داعش اور القاعدہ کے ذریعے شام کے شہر حلب کے مختلف قصبوں پر حملہ کروا کر داعش کے قبضہ میں دے دیتے ہیں۔
میڈیا کے مطابق اس مرتبہ داعش بڑے ہتھیاروں کے ذریعے حملہ آور ہوئے ہیں اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اردوغان براہ راست اس آپریشن میں داعش اور القاعدہ کے ساتھ شریک ہیں۔
اس وقت شام میں القاعدہ اور داعش میں چین،عرب، وسطی ایشیائی اور شمالی افریقہ کےافراد شامل ہیں۔
شامی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں اکثریت کی تعداد چین اور شمالی افریقہ کے لوگوں کی تعداد زیادہ بتائی جارہی ہے۔
اس سے مسلمانوں کےلئے ایک عمومی پیغام سمجھ لینا چاہیے کہ شام میں لڑنے والے لوگ اہل سنت نہیں ہیں، بلکہ دنیا بھر کے تکفیری وہاں جاکر لڑ رہے ہیں۔
حالات بتاتے ہیں کہ داعش اور القاعدہ کا قبضہ شام کے ان علاقوں میں دیر تک قائم نہ رہ سکے گا۔
جنگ کی ابھی کی صورت حال یہ ہے کہ شام اور روسی فوج مل کر ان علاقوں کواپنے قبضہ میں دوبارہ لے رہی ہیں اور داعش کا بہت بڑا نقصان بھی ہوا ہے۔
ابھی تک داعش اور القاعدہ کے 200 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں اور بہت سے قصبے آزاد بھی کروا لیے ہیں۔
شام یقیناً اپنے تمام تر قصبوں کو دوبارہ واپس بھی لے گا، لیکن اس مرتبہ اردوغان، اسرائیل نوازی کی سزا میں ادلب کو بھی کھو سکتا ہے۔