پیر 27 اکتوبر 2025 - 05:46
انسان کی عظیم جنگ کسی بیرونی دشمن سے نہیں، بلکہ اپنے ہی نفس سے ہے، حجت الاسلام شیخ زاہدی

حوزہ/مرکزی جامع مسجد سکردو بلتستان میں ہفتہ وار درسِ اخلاق بعنوانِ ”دل کی بھوک اور ایمان کا علاج“ منعقد ہوا؛ درس انجمنِ امامیہ بلتستان کے نائب صدر حجت الاسلام شیخ زاہد حسین زاہدی نے دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مرکزی جامع مسجد سکردو بلتستان میں ہفتہ وار درسِ اخلاق بعنوانِ ”دل کی بھوک اور ایمان کا علاج“ منعقد ہوا؛ درس انجمنِ امامیہ بلتستان کے نائب صدر حجت الاسلام شیخ زاہد حسین زاہدی نے دیا۔

انہوں نے مندرجہ ذیل دعا اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ. ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس نفس سے جو کبھی نہیں بھرتا۔ کو سرنامہ کلام قرار دیا اور انسان کی سب سے بڑی جنگ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ انسان کی سب سے عظیم جنگ کسی بیرونی دشمن سے نہیں، بلکہ اپنے ہی نفس سے ہے؛ یہی نفس انسان کو جنت کے قریب بھی لے جاتا ہے اور جہنم کے دہانے تک بھی پہنچا دیتا ہے۔اسی لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:"اَعدٰی عدوِّکَ نفسُکَ الّتی بین جنبَیْکَ" "تیرا سب سے بڑا دشمن وہ نفس ہے جو تیرے اپنے ہی اندر ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ اسی خطرناک دشمن سے بچاؤ کے لیے معصومین علیہم السلام نے یہ دعا سکھائی: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ. "پروردگار، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اُس نفس سے جو کبھی سیر نہیں ہوتا۔"

انہوں نے نفس اور خواہش کی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے انسان کے اندر قوتِ خواہش (Desire) رکھی ہے۔ اگر یہ خواہش حدودِ الٰہی میں رہے تو عبادت بن جاتی ہے، لیکن اگر یہ بے لگام ہو جائے تو حرص و لالچ میں بدل جاتی ہے۔ ایسا نفس جو دنیا کی دولت، شہرت، عزت اور طاقت سب کچھ پا لینے کے باوجود مزید چاہتا رہے؛ وہی نفسِ لَا تَشْبَعُ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ قرآن مجید اسی کیفیت کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتا ہے: كَلَّا إِنَّ الْإِنسَانَ لَيَطْغَىٰ أَن رَّآهُ اسْتَغْنَىٰ. (العلق: 6-7) "یقیناً انسان سرکشی کرتا ہے، جب وہ اپنے آپ کو بے نیاز سمجھنے لگتا ہے۔

شیخ زاہد حسین زاہدی نے مزید کہا کہ یہی حرص انسان کو عبادت سے غافل، دل سے بے سکون اور آخرکار گناہ کے اندھیروں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "دو چیزیں انسان کے ساتھ ہمیشہ بڑھتی جاتی ہیں: حرص (لالچ) اور عمر (لمبی زندگی کی آرزو)۔

حجت الاسلام شیخ زاہد حسین زاہدی نے حرص و ہوس کی تفسیر کرتے ہوئے کہا کہ جب انسان جوان ہوتا ہے تو دنیا کے مال کا حریص ہوتا ہے اور جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو کہتا ہے: "کاش مجھے تھوڑا سا اور وقت مل جائے۔۔ تھوڑا سا اور جمع کر لوں۔"عمر گھٹتی رہتی ہے مگر حرص بڑھتی جاتی ہے۔ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: "حرص ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو ذلت کی طرف لے جاتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جیسے انسان طوفان سے بچنے کے لیے مکان بناتا ہے اور دشمن سے بچنے کے لیے قلعہ، اسی طرح روحانی خطرات سے بچنے کے لیے بھی ایک معنوی پناہ گاہ کی ضرورت ہے۔

اسلام نے ہمیں تین عظیم پناہ گاہیں عطا کی ہیں:

1. مسجد: دل کو سکون، آنکھوں کو نور، اور روح کو طہارت بخشنے والی جگہ۔ مسجد مومن کا گھر ہے۔

2. امام بارگاہ: جہاں محبتِ اہلِ بیت(ع) کے سائے میں ایمان تازہ ہوتا ہے اور نفس کی تربیت کا سامان میسر آتا ہے۔

3. علماء و صالحین کی صحبت جو دلوں کا آئینہ ہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنا انسان کو اپنی باطنی خامیاں دکھاتا ہے، دل کو نرم اور روح کو زندہ کرتا ہے۔

انہوں نے قناعت کو نفس کا علاج بیان کرتے ہوئے کہا کہ حرص و لالچ کا واحد علاج قناعت ہے۔ قناعت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان کچھ نہ چاہے، بلکہ یہ کہ جو کچھ اللہ نے عطا کیا ہے اُس پر شکر کرے۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: "جو تھوڑے پر راضی ہو جائے، دنیا خود اُس کے سامنے جھک جاتی ہے۔"جو دل قناعت سے بھر جائے، اس کی زندگی میں سکون اور اطمینان آ جاتا ہے اور جو قناعت سے خالی ہو، اس کے اندر ہمیشہ جلتی ہوئی آگ رہتی ہے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ آئیں! ہم اپنے دلوں کو دنیوی لالچ سے پاک کریں اور اپنے نفس کو الٰہی پناہ گاہوں مسجد، امام بارگاہ اور علماء کی مجالس میں لے آئیں؛ یہی وہ قلعے ہیں جو انسان کو دنیا کے فریب اور آخرت کی رسوائی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جس نے اپنے نفس کو مسجد، امام بارگاہ اور علماء کی صحبت میں پناہ دی، اللہ اسے دنیا کے دھوکے اور آخرت کی ذلت سے نجات عطا فرماتا ہے۔

رپورٹ: آغا زمانی سکردو بَلتستان

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha