تحریر: آغا زمانی سکردو
حوزہ نیوز ایجنسی| بلند و بالا پہاڑوں کے سائے میں بسی ہوئی یہ سرزمین صرف جغرافیہ نہیں، یہ ایک زندہ اخوت، ایثار اور ایمان کی داستان ہے۔ گلگت بلتستان کے باسیوں نے اپنی برفیلی وادیوں میں محبت کے وہ چراغ روشن کیے ہیں جو سرد ہواؤں کے جھونکوں میں بھی بجھ نہیں پاتے۔ یہاں کے دریا صرف پانی نہیں بہاتے، بلکہ امن، وحدت اور بصیرت کی کہانیاں گنگناتے ہیں۔گلگت بلتستان، وہ خطہ جہاں پہاڑوں کی بلندیوں سے زیادہ عظیم یہاں کے لوگوں کا صبر، محبت اور اخوت ہے۔ جہاں دریاؤں کی روانی کی طرح قلوب میں ایمان، رواداری اور بھائی چارے کی لہریں بہتی ہیں۔ یہاں کے عوام نے ہمیشہ اس خطے کو آگ و خون کی راہوں سے بچانے کے لیے تدبر، بصیرت اور قربانی کی مثالیں قائم کی ہیں۔
لیکن حالیہ دنوں میں امیر جماعت اہلسنت مولانا قاضی نثار احمد پر حملے کا واقعہ اس خطے کے امن و اتحاد کو چیلنج کرنے کی ایک گہری اور سوچی سمجھی سازش کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ وہی سازش ہے جو ہر اس وقت سر اٹھاتی ہے جب گلگت بلتستان کے عوام وحدت و اخوت کی فضا میں سانس لینے لگتے ہیں۔
وحدت کے لیے علمائے کرام کا کردار
گلگت بلتستان کے مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام نے ہمیشہ کی طرح اس موقع پر بھی اتحاد و امن کا مظاہرہ کرتے ہوئے مثالی قیادت کا ثبوت دیا۔
امام جمعہ جامع مسجد سکردو بلتستان، داعی وحدت علامہ شیخ محمد حسن جعفری نے اس واقعے کو “سوچی سمجھی سازش” قرار دیتے ہوئے فرمایا: "جب جب یہاں اتحاد کی باتیں ہوئی ہیں، علاقہ دشمنوں نے شرارت کی ہے۔ ہمیں ہوشیار رہنا ہوگا، کیونکہ گلگت بلتستان کا امن دشمنوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔"
اسی تسلسل میں صدر انجمنِ امامیہ بلتستان آغا سید باقر الحسینی نے دلوں کو جوڑ دینے والا پیغام دیا: "ہم بھائی بھائی ہیں، ہمیں لڑانے والے ہم سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔"
یہ جملے صرف سیاسی ردِعمل نہیں بلکہ ایک فکری منشور ہیں، جو گلگت بلتستان کے شعور اور وحدتِ امت کے فلسفے کو زندہ رکھتے ہیں۔
آغا علی رضوی (صدر مجلس وحدت المسلمین گلگت بلتستان) نے اپنے بیان میں کہا: "امن خراب کرنے والے علاقے کے مشترکہ دشمن ہیں۔"
یہ اعلان دراصل اس اجتماعی شعور کی علامت ہے جو دشمنوں کی چالوں کو ناکام بناتا ہے۔
جیسا کہ امامِ جمعہ مرکزی جامع مسجد گلگت علامہ آغا راحت الحسینی نے کہا: "گلگت بلتستان کا امن تباہی کرنے والوں کو بے نقابی کیا جائے"۔ یہی وہ عزم و بصیرت ہے جس نے گلگت بلتستان کو نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں امن و بھائی چارے کی روشن مثال بنایا ہے۔
دیگر مکاتب فکر کی بصیرت
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت اور اہل حدیث کے رہنماؤں نے بھی اس واقعے کی مذمت کی اور اتحاد کے پیغام کو تقویت بخشی۔
ڈاکٹر محمد علی جوہر (رہنما جمیعت اہلحدیث بلتستان) نے کہا: "قاضی نثار احمد پر حملہ گلگت بلتستان کی وحدت پر حملہ ہے۔ تحقیقات لازمی ہیں تاکہ امن خراب کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاسکے۔ ہم ایک تھے، ہیں اور رہیں گے، تقسیم کی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔"
یہ الفاظ محض سیاسی نعرے نہیں بلکہ دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والی صدائیں ہیں، جو بتاتی ہیں کہ گلگت بلتستان کی روح میں فرقہ واریت کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
عدلیہ، وکلا اور تاجر برادری کا پیغام
محبوب خاکسار ایڈووکیٹ (صدر بار ایسوسی ایشن سکردو) نے اس واقعے کو “امن پر حملہ” قرار دیتے ہوئے کہا: "وکلا امن و امان کی مجموعی صورتحال کو برقرار رکھنے کیلئے سفیر بنیں۔ امن سب کی ضرورت ہے، اس نعمت کو چھیننے والے ہم سب کے مشترکہ دشمن ہیں۔"
اسی طرح صدر انجمن تاجران بلتستان نے بھی اپنے بیان میں کہا: "تاجر برادری خطے میں قیامِ امن کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ ہم کسی کو فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔"
شیعہ سنی اتحاد، کردار کی صورت میں محبت
حقیقی اتحاد کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب گلگت میں ایک اہل تشیع نوجوان احتجاجی دھرنے میں شامل ہوا تاکہ قاضی نثار پر حملے کے خلاف اپنی آواز بلند کرے۔
یہی نہیں، بلکہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک تصویر نے پورے خطے کو امید کی کرن دکھائی۔ پڑی بنگلہ سے تعلق رکھنے والے ایک اہل سنت بھائی نے سکردو کے ایک اہل تشیع نوجوان کو مشکل وقت میں اپنے گھر لے جا کر مہمان نوازی کی۔ یہ منظر گلگت بلتستان کے عوامی شعور اور حقیقی اخوت کی عملی تصویر ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نفرت کے پرچار کرنے والے کبھی بھی محبت کے اس کلچر کو مٹا نہیں سکتے۔
اتحاد کا پیغام، قرآن و سنت کی روشنی میں
قرآن مجید واضح فرماتا ہے: “واعتصموا بحبل الله جميعاً ولا تفرقوا”(سورۃ آل عمران، آیت 103)"اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو۔"
اسی آیت کے مطابق گلگت بلتستان کے عوام نے ہمیشہ ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کیے۔ یہاں کے علماء نے "وحدت امت" کو نظریہ نہیں بلکہ طرزِ زندگی بنایا ہے۔
امن، محبت اور شعور کا سفر
اہلسنت عالم قاضی نثار احمد پر حملہ یقیناً افسوسناک اور قابلِ مذمت واقعہ ہے مگر اس کے بعد جو فکری بیداری، اجتماعی یکجہتی اور بین المکاتب محبت سامنے آئی، وہ گلگت بلتستان کی اصل طاقت ہے۔ یہ سرزمین “امن و اخوت کی مادرِ علمی” بن چکی ہے، جہاں دشمن کی ہر سازش عوام کے اتحاد کے پتھروں سے ٹکرا کر چکنا چور ہوجاتی ہے۔
آج گلگت بلتستان کے ہر باسی، ہر عالم، ہر طالبعلم اور ہر تاجر کو یہ پیغام یاد رکھنا ہوگا: "امن سب کی ضرورت ہے، اور اس نعمت کے محافظ ہم سب ہیں۔"









آپ کا تبصرہ