حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، دہلی کی ایک عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مہرولی کے معروف قطب مینار کے احاطے میں واقع تاریخی مسجد ’قوت الاسلام‘ کئی مندروں پر مشتمل وسیع عمارت کو ڈھاکر بنائی گئی ہے اس لیے اسے شہید کرکے وہاں دوبارہ مندر تعمیر کیا جائے۔
مسجد کو شہید کرنے کی اس اپیل میں درخواست گزاروں نے خود کو جین مت کے بانی ترتھنکر رشبھ دیو اور ہندو دیوتا وشنو اور ان کے اوتاروں کا نمائندہ قرار دیا ہے۔ درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ موجودہ قطب مینار کے احاطے میں مختلف دیوی دیوتاؤں اور اوتاروں کے 27 مندر قائم تھے۔
اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مغل فرماں روا قطب الدین ایبک کے حکم پر یہ 27 مندر منہدم کرکے انہی کی باقیات سے اس جگہ مسجد قوت الاسلام تعمیر کی گئی۔اگرچہ قطب الدین ایبک غوری بادشاہ معزالدین محمد غوری کا سپہ سالار رہا اور وہ خاندان غلاماں کا بانی تھا۔ تاہم درخواست میں اسے بار بار مغل ہی لکھا گیا ہے۔
درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ قطب مینار کا احاطہ اور مسجد قوت الاسلام سمیت یہاں موجود عمارتیں انہی مندروں کی باقیات اور تعمیری سامان سے تیار کی گئی ہیں اس لیے انہیں منہدم کرکے دوبارہ مندر تعمیر کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔ دہلی عدالت کی سول جج نیہا شرما نے 24 دسمبر کو درخواست کی سماعت کے لیے تاریخ مقرر کردی ہے۔
واضح رہے ہندوستان میں مساجد سمیت مسلمان حکمرانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں کے بارے میں یہ پروپیگنڈا مزید زور پکڑ گیا ہے کہ یہ سبھی تعمیرات ہندو معبدوں کو منہدم کرکے کی گئی ہیں۔ اس حوالے سے بابری مسجد ایک بہت واضح مثال ہے جس کی شہادت کو تین روز قبل ہی 28 سال مکمل ہوئے ہیں اور رواں سال بی جے پی کی حکومت نے یہاں رام مندر کی تعمیر کا آغاز کردیا ہے۔
ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے تاج محل، لال قلعہ اور دہلی کی جامع مسجد سمیت دیگر کئی تاریخی عمارتوں کے بارے میں بھی یہ دعوے سامنے آتے رہے ہیں کہ یہ عمارتیں مندر منہدم کرکے تعمیر کی گئی ہیں یا دراصل یہ عمارتیں ہندو مذہبی عبادت گاہیں تھیں جنھیں بعد میں تبدیل کردیا گیا۔