حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آستان قدس رضوی کے علمی و ثقافتی ادارے ویبینار کی صورت میں ایک سیمنار کا انعقاد کیا گیا جسمیں ایران، لبنان اور شام میں استقامتی محاذ کی یونیورسٹیوں کے بین الاقوامی مقررین نے شرکت کیا۔
رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ نے داعش کے خاتمے کو عالم اسلام کے لئے جنرل سلیمانی کا تحفہ قرار دیا اور کہا کہ داعش کی شکست، عظیم جنرل شہید سلیمانی کی استقامت، شجاعت اور جد و جہد کا نتیجہ تھی۔
رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین حسن وحدتی شبیری نے "استقامت کا نظریہ اور عالم اسلام کا مستقبل " کے زیرعنوان ایران لبنان اور شام میں استقامتی محاذ کی یونیورسٹیوں کے پہلے بین الاقوامی سیمنار میں یہ بات کہی ۔
حجت الاسلام والمسلمین حسن وحدتی شبیری نے رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کی حیثیت اور استقامت کی ترویج میں اس کے کردار پر زور دیتے ہوئے، دیگر یونیورسیٹیوں اور مراکز میں استقامت کے نظریات کی ترویج میں اس یونیورسٹی کے طلبا کے کردار کا ذکر کیا۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھی اسلام کی عظمت و سربلندی کے لئے شام ، لبنان اور عراق گئے تھے ، کہا کہ جنرل سلیمانی نے عزم راسخ اور ولی فقیہ کا اتباع کرتے ہوئے سامراج کے مقابلے میں مظلوم کی مدد کی راہ میں استقامت کا مظاہرہ کیا اور بڑی شجاعت کے ساتھ، ان ملکوں میں استقامتی محاذ کا سنگ بنیاد رکھا۔
رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ نے کہا کہ جنرل سلیمانی نے عزم راسخ ، جہاد اور خداوند متعال نیز ائمہ اطہار علیھم السلام کے احکامات کی پیروی کے واجب ہونے پر مکمل یقین کے ساتھ ، داعش کو شکست دینے میں کامیابی حاصل کی ۔
انہوں نے زور دیا کہ دشمن ہمیشہ، اسلام اور مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں اسی لئے اسلامی علماء باہمی اتحاد و یکجہتی کے ذریعے ، دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہيں ۔
رضوی علوم اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ حجت الاسلام والمسلمین وحدتی شبیری نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ استقامت کا نظریہ ہمیشہ زندہ رہے گا ، کہا کہ ہم دنیا بھر کے مسلمان ، خداوند متعال پر توکل کے ذریعے ، بیت المقدس کو آزاد کرانے میں کامیاب ہوں گے ۔
شہید قاسم سلیمانی کا خون رائیگاں نہيں جائے گا
لبنان کے "باحث ریسرچ سینٹر" کے سربراہ ڈاکٹر یوسف نصر اللہ نے بھی اس سیمنار میں اپنی تقریر کے دوران، شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت اور ان کی سرگرمیوں کے سلسلے میں اس ریسرچ سینٹر میں ہونے والے کاموں کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت پر ایک کتاب تیار کی گئي ہے جو عالم اسلام سے تعلق رکھنے والے استقامتی محاذ کی متعدد شخصیتوں کے تاثرات پر مشتمل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جنرل سلیمانی کی شخصیت پر ایک کتاب کی تدوین کے علاوہ اس ریسرچ سینٹر میں استقامتی محاذ کے لئے خطرات کے موضوع پر استقامتی محاذ کے علماء اور شخصیتوں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے۔
یوسف نصر اللہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت سے ، عالم اسلام میں استقامت کی اہمیت اور بڑھ گئی ، کہا کہ اسلامی ملکوں کی جغرافیائی سرحدیں ، شام اور لبنان میں جنرل قاسم سلیمانی کی استقامتی سرگرمیوں کو روک نہيں پائيں اور وہ پوری مضبوطی اور شجاعت کے ساتھ ان ملکوں میں گئے اور پائیداری کے ساتھ داعش کے خلاف جنگ کی اور فتح یاب ہوئے ۔
انہوں نے اس بات پرزور دیتے ہوئے کہ جنرل قاسم سلیمانی کا خون رائیگاں نہیں جائے گا ، کہا کہ جنرل سلیمانی ہمیشہ شہادت کے خواہشمند رہے اور ہم سب کو اندازہ تھا کہ وہ بہت جلد شہید ہونے والے ہيں ۔
انہوں نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی ، علاقے میں امریکہ اور اسرائيل کو شکست دینے میں کامیاب رہے اور ان کی شہادت کی ایک وجہ ، امریکہ کی جانب سے اس شکست کا انتقام بھی ہے ۔
یوسف نصر اللہ نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت نے سب کے لئے یہ حقیقت واضح کر دی کہ استقامتی فقہ و نظریہ کو پھیلنا چاہئے اور اس سے عراق اور شام میں استقامتی محاذ کی طرف توجہ بڑھی ہے۔
سخت ترین جنگوں میں شہید قاسم سلیمانی پیش قدم
شام کی الشام الخاصہ یونیورسٹی کے پروفیسر وائل الامام نے بھی اس سیمنار میں تقریر کی ۔ انہوں نے شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کے انسانی ، اخلاقی اور عرفانی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تاریخ کے بے انتہاء شجاع کمانڈروں میں سے ایک تھے جو انتہائي سخت جنگوں میں ہمیشہ اگلے محاذ (فرنٹ لائن) پر رہتے تھے ۔
انہوں نے، شہید قاسم سلیمانی کی آخری تحریر کو ، ان کی صوفیانہ اور عرفانی طبیعت کا غماز بتایا اور کہا کہ شہید قاسم ، فناء فی اللہ کی منزل میں پہنچ چکے تھے اور خوف خدا نے انہیں شہادت کے اعلی درجے تک پہنچا دیا۔
انہوں نے کہا کہ شہید قاسم سلیمانی ، ہمیشہ مظلوموں کی مدد کرتے تھے اور کفر و استکبار کے سامنے ڈٹ جانا ان کی نمایاں خصوصیات تھیں شام کے پروفیسر وائل الامام نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی، امام خمینی رحمت اللہ علیہ اور رہبر انقلاب اسلامی کے نظریات و افکار سے متاثر تھے اور ہمیشہ شہیدوں کے اہل خانہ کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے چنانچہ ان کی شہادت کے بعد شہداء کے بچوں کو یہ محسوس ہوا گویا انہوں نے اپنا باپ کھو دیا ہے۔
استقامت اور عالم اسلام کا مستقبل روشن ہے تہران کی امام صادق یونیورسٹی کے نائب سربراہ ڈاکٹر غلام رضا گودرزي نے اپنے خطاب میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ استقامت اور عالم اسلام کا مستقبل روشن ہے، کہا کہ یہ ایک نعرہ یا آرزو نہيں ہے بلکہ واضح دلائل کی بناء پر ہمارے لئے یہ یقینی اورحتمی امر ہے۔
انہوں نے کہا کہ استقامت کا موضوع، ایک تاریخی شناخت ہے کہ جو حق و باطل کے معرکے سے وجود میں آئی اور ایک پرانے ماضی پر مشتمل ہے ۔ خلقت کے آغاز سے اب تک ہمیشہ حق و باطل ، بر سر پیکار رہے ہیں اور ہمیشہ حق نے استقامت کا مظاہرہ کیا ہے ۔
ڈاکٹر غلام رضا گودرزی نے مزید کہا کہ اس استقامت نے ، سازباز کے محاذ کے سامنے ڈٹے رہنے کو ترجیح دی ہے ، استقامت ایک فطری چیز ہے اور انسان کبھی بھی ظلم کو تسلیم نہیں کرتا اور ہمیشہ غلط بات کے سامنے ڈٹ جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تاریخ میں ہمیشہ استقامتی محاذ کو ہی فتح نصیب ہوتی رہی ہے اور جن قوموں نے استقامت کی ہے وہی فاتح رہی ہيں اور جیسا کہ قرآن مجید کی آیات میں اس پر زور دیا گیا ہے ، استقامت ، ایک الہی سنت ہے اور اگر ہم ثابت قدم اور پائیدار رہتے ہيں تو خداوند عالم بھی ہماری مدد کرتا ہے۔
امام صادق یونیورسٹی کے نائب سربراہ ڈاکٹر غلام رضا گودرزي نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ حق و باطل کے معرکے میں ، سافٹ وار ، فوجی جنگ سے کہیں زیادہ سنجیدہ اور سخت ہے ، کہا کہ استقامتی محاذ میں ہمیں سافٹ وار کا سامناہے اور یہاں دانشوروں کا کردار بہت زیادہ اہم ہو جاتا ہے؛ جیسے جنرل قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس جیسی شخصیتوں نے میدان جنگ میں اپنی جان کی قربانی دی ہے اسی طرح سافٹ وار کے میدان میں دانشوروں کو آگے آنا چاہئے۔
انہوں نے کہا کہ میری تجویز ہے کہ عالم اسلام کی یونیورسیٹی کی شرکت سے عالم اسلام کے دانشوروں کے درمیان گفتگو کے لئے مستقل سیکریٹیٹ تشکیل دیا جائے جہاں ہم استقامت کے نظریہ پر تحقیق اور تبادلۂ خیال کریں تاکہ استقامتی نظریہ سے متعلق موضوعات مزید وسیع اور ٹھوس ہوں جائيں اور شبہات کا ازالہ ہو سکے۔