۱۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۸ شوال ۱۴۴۵ | May 7, 2024
قومی فلسطین کانفرنس

حوزه/ لاہور پاکستان میں امتِ واحدہ پاکستان کے زیر انتظام "قومی فلسطین کانفرنس" کا انعقاد ہوا جس کی صدارت فورم کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے کی، جبکہ مختلف شعبوں اور تنظیموں سے وابستہ حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور پاکستان میں امتِ واحدہ پاکستان کے زیر انتظام "قومی فلسطین کانفرنس" کا انعقاد ہوا جس کی صدارت فورم کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے کی، جبکہ مختلف شعبوں اور تنظیموں سے وابستہ حضرات نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

انہوں نے کانفرنس میں شریک علماء کرام، دانشور و صحافی حضرات، مفتیان عظام اور ٹی وی چینلز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آپ سب کی مشترکہ محفل ہے اور آپ سب اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے یہاں تشریف لائے ہیں، لیکن فلسطین کا مسئلہ کسی خاص مسلک، جغرافیہ یا قوم کا مسئلہ نہیں۔ یہ اللہ اور اس کی مخلوق، عدل و انصاف اور انسانیت کا مسئلہ ہے، اس لیے جو بھی اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور انسان سمجھتا ہے خواہ اس کا پس منظر کچھ بھی ہو، فلسطین اس کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں لہذا ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنی بساط کے مطابق کوشش اور فلسطین کے ایشو کو نمایاں کرنے کے لئے اپنی تمام توانائیاں صَرف کریں۔

فلسطین کے مستقبل سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، علامہ امین شہیدی

علامہ امین شہیدی نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کو قرآنی نگاہ سے دیکھنا ضروری ہے۔ ایسی اقوام جن کو اللہ نے اپنی کتاب قرآن کریم میں دیگر اقوام کی نسبت سب سے زیادہ اہلِ بغض و نفرت، ظالم اور شدت پسند قرار دیا ہے، وہ آل یہود اور مشرک ہیں۔ اللہ تعالی فرماتا ہے: "آپ دیکھیں گے کہ صاحبانِ ایمان سے سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے یہودی اور مشرک ہیں۔" (المائدہ:82) یہ اللہ اور قرآن کی گواہی ہے۔ اگر ہم یہودیوں کی تعلیمات کو ملاحظہ کریں تو اس سے بھی یہ بات باآسانی سمجھ آتی ہے کہ جو کچھ اِس وقت فلسطین میں ہو رہا ہے وہ محض جنگی جنون نہیں بلکہ یہ یہودیوں کا باقاعدہ عقیدہ ہے جو انہوں نے اپنی مقدس کتاب سے لیا ہے۔ جب کہ تورات کے مطابق وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آل یہود دنیا میں موجود تمام انسانوں سے برتر نسل ہے اور ان کی نسل ماؤں سے چلتی ہے۔ دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ مسئلہ فلسطین پر اقوام متحدہ کی کسی ایک قرارداد پر عمل نہیں ہوا۔ وہاں اسرائیل کے خلاف اب تک 49 قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں جنہیں امریکہ نے ویٹو کیا اور کئی ممالک کا مطالبہ دھرا کا دھرا رہ گیا۔ اسرائیل کے خلاف کوئی قدم عملی طور پر نہیں اٹھایا گیا۔ آپ سب کی آمد خوش آئند ہے کیونکہ آپ لوگ یہاں اقتدار کی نہیں بلکہ مسلم امہ اور مظلوم انسانوں کی نمائندگی میں آئے ہیں۔ حکمرانوں سے ہمیں کوئی توقع نہیں، اگر توقع ہے تو مظلوم مسلمانوں سے!

فلسطین کے مستقبل سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، علامہ امین شہیدی

انہوں نے کہا کہ چند دن قبل غزہ پر رات کے وقت حملہ ہوا۔ پانچ گھنٹے مسلسل امریکی اور صہیونی افواج نے زمینی اور فضائی حملے کیے۔ اسی رات حماس نے تیس سے زیادہ مرکاوا ٹینکس کو تباہ کیا اور اسرائیلی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔ لیکن مقامی اور انٹرنیشنل میڈیا خاموش رہا کیونکہ میڈیا نے وہی پروموٹ کرنا ہے جو اسرائیل کے مفاد میں ہو اور اس کے ہَوّا کو قائم رکھ سکے اور جو چیز اسرائیل اور امریکہ کی شکست پر منتج ہو، اُسے حتی الامکان چھپانا ہے۔ اگر ملاحظہ کریں تو سوشل میڈیا پر کوئی چیز بھی اسرائیل کی مخالفت یا فلسطینیوں کی حمایت میں شیئر یا اپلوڈ نہیں کی جا سکتی۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو صارفین کے اکاؤنٹس بند ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ سب کچھ یہی لوگ کنٹرول کر رہے ہیں۔ ایسی فضا میں مسلم امہ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ یمن، شام، عراق اور لبنان کے بہادر و باحمیت مجاہدین نے باہر سے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ حزب اللہ نے آگ اگلتے ہوئے راکٹس برسائے۔ جب بارود کی بارش ان پر پڑی تو وہ حیران رہ گئے اور بہت بڑی ہزیمت اٹھانے کے ساتھ ساتھ انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ اِس وقت فلسطینیوں کی فتح کو میڈیا پر نہیں دکھایا جا رہا البتہ ان کی مظلومیت کا چرچا ہر طرف ہے۔ بے کسی کے باوجود ان کا استقامت اور پوری طاقت کے ساتھ اسرائیل کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ایسی جرات ہے کہ جسے تمام امتِ مسلمہ سلام پیش کرے تو بھی حق ادا نہیں ہو سکتا۔ گویا آج کی اس کانفرنس میں علماء، عمائدین اور اہلِ درد کا مل بیٹھنا ایک طرح سے اپنے اذہان و مؤقف کو واضح کرنے کے علاوہ فلسطین کے ایشو کو حقیقی معنوں میں سمجھنا ہے اور پروپیگنڈا کے مقابلہ میں کھڑے ہو کر فلسطین کی حمایت میں اپنی آواز کو بلند کرنا ہے۔ اس کے علاوہ جہاں ہمیں موقع ملے وہاں فلسطینیوں اور حماس کی حمایت میں جو کچھ ہم کر سکتے ہیں، ہمیں کرنا چاہیے۔ تحریر و تقریر اور باہر نکل کر احتجاج کے ذریعہ دنیا کو بتا تو سکتے ہیں کہ ہم فلسطین کے ساتھ اور اسرائیلی بربریت کے خلاف ہیں۔ درندوں کی درندگی کو ہم ایک لمحہ کے لیے بھی قبول نہیں کر سکتے۔ یہ ہم سب کی قرآنی و پاکستانی ہونے کے ناطے زمہ داری ہے۔ فلسطین کے مستقبل سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔

علامہ امین شہیدی نے اسرائیلی صدر پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم نیتن یاہو کے بیانات ملاحظہ کریں جن میں اس سے پوچھا جائے کہ تمہارا سب سے بڑا دشمن کون ہے تو وہ ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتا ہے اور اس کے بعد پاکستان کا نام لیتا ہے۔ اس کی وجہ پاکستان کی ایٹمی طاقت اور قوم میں بیداری کا موجود ہونا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل ایران سے اس لیے ڈرتا ہے کہ اگر کوئی اس کے مقابل تمام مزاحمتی قوتوں کی کُھل کر سیاسی، اخلاقی، عسکری، تربیتی و مالی حوالہ سے مدد کر رہا ہے تو وہ ایران ہے، لہٰذا یہ دو ممالک اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹک رہے ہیں۔ باقی مسلمان ممالک کی مجبوریاں ہیں اور جب تک یہ ممالک مجبوری کی زنجیروں میں جکڑے رہیں گے، ذلت ان کا مقدر رہے گی۔ ذلت سے نکلنے کا راستہ ان زنجیروں کو توڑنا اور اپنی قوم اور ملت کی آواز بننا ہے۔ آج ہم اپنی ملت کی آواز کی حیثیت سے جمع ہوئے ہیں۔ میڈیا برادران ہماری آواز کو پاکستان کے پچیس کروڑ عوام اور پوری دنیا تک پہنچا کر اپنی زمہ داری ادا کریں، ہم بھی اپنی زمہ داری ادا کرتے رہیں گے۔

فلسطین کے مستقبل سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے، علامہ امین شہیدی

علامہ امین شہیدی نے اپنا آئندہ کا لائحہ عمل بتایا جس کے تحت سات نومبر 2023ء کو اسی سلسلے کی اگلی کانفرنس فیصل آباد میں ہوگی۔ اس کے بعد کوئٹہ، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں بھی کانفرنسز کے انعقاد کا ارادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے جو بھی ہو سکا، ہم سب مل کر کریں گے۔ اس حوالہ سے لاہور کا یہ اجلاس انتہائی مبارک ہے۔

انہوں نے فلسطینیوں کے اسرائیل کے خلاف اقدام کو بھی مبارک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں گذشتہ چار پانچ دہائیوں میں مظلوم ملکوں کو دبانے کے لئے نسل، جغرافیہ اور مسلک کے نام پر لوگوں کے اذہان کو آلودہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس لئے وہ مظلوم جن کو ان کے وطن سے نکال دیا گیا، جن کے گھروں پر بمباری کر کے ان کی نسلوں کو ختم کر دیا گیا، جن کی مساجد، عبادت گاہوں حتی کہ گرجا گھروں کو بھی نشانہ بنایا گیا، آج ان ہی کو دہشت گردقرار دیا جا رہا ہے۔ یہ اُس زور اور طاقت کا ناجائز استعمال ہے جس کے بعد حیا ختم ہو جاتی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہوگا کہ حال ہی میں جب ترکی کے صدر نے تھوڑا سخت بیان دیا تو اس کے ردِعمل میں اسرائیل نے ترکی سے اپنے سفارتی عملہ کو یہ کہہ کر بلا لیا کہ انہوں نے بڑی سخت زبان استعمال کی ہے۔ یعنی تم اگر ہزاروں بے گناہ انسانوں کے چیتھڑے اُڑا دو تو تمہیں حق ہے، گویا کہ صرف تم انسان ہو اور باقی کیڑے مکوڑے ہیں۔

کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ فلسطینیوں کی بنیادی ضروریات کے لئے عالمی فلسطین فنڈ قائم کیا جائے اور حکومت پاکستان اپنا سیاسی کردار ادا کرے۔

قومی فلسطین کانفرنس میں مسیحی رہنما خالد گل، سیکریٹری لاہور ہائیکورٹ بار صباحت رضوی، ڈاکٹر سید اظہر حسین، نثار ترمذی، صاحبزادہ صفدر شاہ گیلانی، سید نوبہار شاہ، سابق وزیر سید منیر گیلانی، رہنما جماعت اسلامی جاوید قصوری، مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے رہنما علامہ حسن رضا ہمدانی، شیعہ علماء کونسل کے حافظ کاظم رضا نقوی، جماعت اسلامی کے نائب امیر فرید پراچہ، ڈاکٹر شریف پیر زادہ، ضیاء اللہ شاہ بخاری متحدہ جمعیت اہلحدیث، پیر غلام رسول اویسی، مولانا نعیم بادشاہ، وقار الحسنین نقوی، مفتی عاشق بخاری، علامہ غلام عباس شیرازی، صغیر عباس ورک، سابق چئیرمین امامیہ آرگنائزیشن لعل مہدی خان، ڈاکٹر سید اظہر حسین، اُم فروا اور محمد حبیب عرفانی اسلامی نظریاتی کونسل نے شرکت کی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .